روزنامہ آزادی سوات 15جنوری 2013کی اشاعت میں ایک خبر کے مطابق مرکزی حکومت نے ایک دفعہ پھر صوبائی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ملاکنڈ ڈویژن کے سات اضلاع کو ٹیکس کے دائرےمیں شامل کردے۔ ساتھ ہی تاجروں کے انکار کی خبر 19جنوری کے روزنامہ آزادی سوات نے شائع کی اور ایک صوبائی وزیر اور ایک بڑی سیاسی جماعت کے ایک معزز کی طرف سے بھی ٹیکسیشنز کے خلاف بیانات اخبارات نے چھاپے ہیں ۔ تاجروں کے انکار کی خبر تو خیر سمجھ میں آسکتی ہے کیونکہ اس طبقے کے زیادہ تر افراد اپنے منافع پر کوئی حد یا کسی قسم کی وصولی زمانہ قدیم سے نہیں مانتے۔ یہ ہر صورت میں اپنا فائدہ چاہتے ہیں، خواہ عوام تباہ اور ملک کمزور ہی کیوں نہ ہو۔ زمانہ قدیم سے یہی طبقہ چوروں ، ڈاکووں، لٹیروں اور آج کل اغوا کاروں اور بھتہ خوروں کے نشانے پر ہے لیکن سیاست کاروں کی طرف سے انکار صرف انتخابات میں حمایت حاصل کرنے کے لیے ہوسکتا ہے ورنہ اچھی حکمرانی کے لئے وسائل کی فراہمی سے انکار ممکن نہیں۔ بادشاہوں کے زمانے میں اس طبقے سے سخت سزاوں کے ذریعے ٹیکس وصول کیا جاتا تھا اور اب پھر وہ دور آرہا ہے کہ ان سے سختی ہی کی جائے گی۔ البتہ اس ذہین طبقے نے اپنی من مانیاں کرنے کے لئے جمہوری دور سے فائدہ اُٹھایا اور خود اقتدار کی کرسیوں پر قابض ہوگئے اور ملک کی وہ حالت بنادی جس کی مثال اس ملک کی تاریخ میں نہیں ملتی۔ تعجب اس بات پر ہے کہ یہ ذہین اور ہوشیار طبقہ ہم لوگوں سے بہتر جانتا ہے کہ کوئی بھی حکومت مالی وسائل کے بغیر کام نہیں کرسکتی۔ ایک معمولی کچی سڑک سے لے کر بڑے بڑے ریاستی اداروں کے چلانے کے لئے پیسے درکار ہوتے ہیں اور انسانی تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ حکومت کے لئے وسائل صاحبان ثروت کے ٹیکسوں ہی سے جمع کروائے جاتے رہے ہیں۔ دین اسلام میں حکومت کو مالی وسائل فراہم کرنے کے لئے زکوٰۃ وعشر کی ادائیگی کو ارکانِ دین میں قرار دیا گیا یعنی اس سے انکار کو دین سے خروج ٹھہرایا گیا لیکن ہماری مشکل یہ ہے کہ ہم لوگ درست انداز سے زکوٰۃ کی ادائیگی نہیں کرتے اور عشر کا تو نام ہی لوگ بھول گئے ہیں۔
پہلے خلیفہ راشد حضرت ابوبکرؓ کی حکوت کو پہلا مسئلہ مفکریں زکوٰۃ کا پیش آیا۔ سمجھا نے کے باوجود جب اُن لوگوں کا انکار برقرار رہا تو آپ نے اُن پر فوج کشی کرتے ہوئے فرمایا: "خدا کی قسم!اگر کسی نے بکری کے گلے کی رسی جو زکوٰۃ میں دینے والی تھی، کے دینے سے انکار کیا تو میں اُس کے خلاف لڑوں گا"۔ یہ ہے ریاست کی خاطر مالی وسائل کی فراہمی کے لئے مسلمان حکمران کا کردار۔ اس اہمیت سے عوام عموماً غافل رکھے گئے ہیں۔ لہو ولعب میں عوام کی مسلسل تربیت تو ہوتی ہے لیکن شہریوں کے فرائض اُن کو بتانے کی سعی ہم کسی طرف سے نہیں دیکھتے۔
ذاتی طور پر ہم ادائیگی زکوٰۃ ، عشر اور صدقات و خیرات (ٹیکسز، صدقات و خیرات کی تعریف میں آسکتے ہیں)کے قائل ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ ہمارے یہاں دولت مندوں کی تعداد اُن کی دولت کی مقدار کافی سے زیادہ ہوچکی ہے۔ یہ اُن کا دینی اور اخلاقی فرض ہے کہ وہ مقررہ مقدار کی ادائیگی کریں۔ اس سے معاشرے میں عدل قائم ہوتا ہے اور عدل سے امن و امان، جو ہم سب کی ضرورت ہے۔ جہاں تک متعلقہ عمال میں خیانت گری کی بات ہے تو وہ ایک قدیم انسانی کمزوری ہے لیکن چند افراد کی خیانت کا یہ مطلب نہیں کہ سب لوگ خیانت گر بن جائیں۔ اس وقت کمزور حکمرانی کی وجہ سے وطن عزیز اٹھارہ ہزار ارب روپیہ کا مقروض ہو چکا ہے، قانون کی سختی سے پابندی کے بغیر یہ بوجھ کم نہیں ہوسکتا۔
اگرچہ ہمیں ایسی کوئی مستند دستاویز نظر نہیں آئی جس میں حکومت پاکستان نے سابقہ والئی سوات سے اس علاقے کو تاقیامت قومی واجبات سے مستثنیٰ قراردیا ہو لیکن اس غلط بیانی کو ہمارے علاقے کا "بورژوا طبقہ" ہوا دے رہا ہے تاکہ ان کی تجوریاں عوام کا خون نچوڑ نچوڑ کر بھرتی رہیں۔ ایسا کوئی معاہدہ کسی بھی وقت نہیں ہوا ہے ۔ کوئی خفیہ کاغذ ایسے بڑے معاملے میں تحریر ہو ہی نہیں سکتا۔ یہ تو خوشخبری ہوتی جس کا اشتہار ہوتا۔ ریاست کا ادغام ہمیں اچھی طرح یاد ہے، اُس وقت پورے سوات میں ایک درجن سے بھی کم پختہ مکانات تھے ۔ اگر آج کے ساتھ موازنہ کیا جائے تو اب سوات کے چند خواص ہزار ہا گنا سے زیادہ مالدار ہوگئے ہیں بلکہ جو کنٹرول اور اعلیٰ حکمرانی والئی سوات کے دور میں تھی، اُس کا عشر عشیر بھی آج نہیں۔ سن پینسٹھ کی جنگ کے بعد مینگورہ کے ایک تاجر نے گندم کی بوری ایک روپیہ مہنگی کی اور اُسے ریاست کی طرف سے جرمانہ کیا گیا کہ جب تم نے مہنگا نہیں خریدا تو تم نے کیسے اس کی قیمت بڑھائی؟ آج ہمارے تاجر حضرات اپنے اپنے گریبانوں میں جھانک کر دیکھ لیں ۔ معیار اور مقدار میں جو ظلم ہماری مارکیٹ کرتی ہے ، دنیا بھر میں اُس کی نظیر نہیں ملتی۔ پھر پاکستانی تاجر منافع کی کتنی مقدار رکھتے ہیں، اس کی کوئی حد یا اُصول نہیں۔ اگر والئی سوات والا مفروضہ درست تسلیم کیا جائے تو ملاکنڈ کے باقی ماندہ اضلاع جو ریاست سے الگ تھے، میں ٹیکس نافذ کیا جائے گا اور بے پناہ دولتمند سواتی اس سے بچ جائیں گے اگر ملاکنڈ ڈویژن ٹیکس دینے سے مزید انکار کرے گا تو کل اس کا ترقیاتی فنڈ محصولات سے منسلک کیا جائے گا کیونکہ عوام کی حکومت اور اے این پی نے مل کر اٹھارویں ترمیم آئین میں کی ہے جس کے تحت محصولات اور مالی وسائل کی تلاش اب صوبوں کا کام ہے۔ پی پی پی اور اے این پی کو اس ڈویژن کے عوام نے اقتدار دیا ، اب اُن کی بات ماننی ہوگی۔ مردان، پشاور، کوہاٹ وغیرہ یہ کبھی برداشت نہیں کریں گے کہ ملاکنڈ ڈویژن جس میں موٹر گاڑیوں ، پلازوں ، مارکیٹوں اور عمدہ پکی عمارات کی تعداد تو پورے صوبے کی مجموعی مقدار سے زیادہ ہے، خود تو کچھ نہ دیں اور اُن کے جمع کردہ ٹیکس پر مزے اُڑائیں۔ ٹیکس سے انکار، کسٹم سے انکار، لائسنس سے انکار، رجسٹریشن سے انکار، قبضہ ، تجاوزات اور"سب کچھ میرا" والا خیال درست نہیں۔ اسی "سب کچھ میرا" کے دعوے نے اس ڈویژن کے عوام میں مایوسی اور نااُمیدی پیدا کرکے اُن کو منفی کردار پر آمادہ کیا اور برے نتائج اسی علاقے کو بھگتنا پڑے۔ اس موضوع پر حکومت کے عمال اور حکمرانوں کو کافی سے زیادہ احتیاط، تدبر اور عدل کے ساتھ سوچ سمجھ کر حکمت سے کام کرنا چاہئے ورنہ صاحبان ثروت عوام کو بھڑکا بھی سکتے ہیں۔
1 comments:
ماشاؑاللہ۔ آپ کے معاشی کانسیپٹ کافی پکّے ھیں۔ھماری قوم کو حکومت سے کارکردگی کی توقع رکھتی ھے، لیکن اس کارکردگی کے لیے ٹیکس دینے سے گریز کرتی ھے۔ اگر عوام کا ٹیکس نظام پر اعتبار قائم ھو جائے تو کسی کو پیسے دیتے تکلیف نہیں ھوگی۔
اپنے بلاگ پر
as NAME/URL
کمنٹ کرنے کا آپشن اینایبل کریں تاکہ دوسرے بلاگرز کو آسانی ھو اپنا تعارف کروانے میں۔
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔