تاریخ کے منتشر ابواب بتاتے ہیں کہ پہلی صدی ہجری ہی سے مسلمانوں کا خون نہایت ہی بے دردی کے ساتھ بہایا جارہا ہے۔ بسا اوقات مسلمان ہی ایسا کرتے ہیں ۔ چنگیز خان اور ہلاکوخان اگرچہ غیر مسلم تھے لیکن اُن کے مسلمانوں علاقوں پر حملوں اور تباہی کی وجوہات زیادہ تر مسلمانوں ہی کی پیداکردہ تھیں۔ آج کل اکیسویں صدی ہے لیکن مغرب میں مراکش ، لیبیا، مصر، سوڈان اور الجیریا سے لے کر مشرق میں برما، فلپائن اور انڈونیشیا تک مسلمانوں کا خون نہایت ہی ارزان ہے۔ بدقسمتی سے اس خون خرابے کا شکار عام مسلمان مرد خواتین اور بچے ہوتے ہیں جو معصوم اور بے گناہ ہوتے ہیں۔ انسانیت کے ناطے ہم یہ اپنا حق سمجھتے ہیں کہ گیر مسلم دانش مند اور صائب الرائے طبقہ اس المیے پر سوچ لے کہ کیوں انسانوں کے ایک گروہ کو سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں کی تعداد میں دنیا کے طول وعرض میں ہلاک کیا جا رہا ہے؟ کیوں کروڑوں کی تعداد میں انسانوں کو ناگفتہ بہ مصائب سے دوچارکیا جا رہا ہے؟ کیوں دوست نما لوگ کروڑ ہا انسانوں کا استعحصال کر رہے ہیں، اُن کے وسائل کو لوٹتے ہیں ، اُن کی ترقی کے راستے روکتے ہیں، اُن کے دن کا چین اور رات کی نیند چینی جارہی ہے ، کیوں کروڑوں عوام کو ذہنی اور جسمانی امراض کی دلدل میں پھینکا جا تا ہے ، کیوں چند لوگ لاکھوں کروڑوں لوگوں کو بھوک اور بے حرمتی کا شکار بناکر اُن کو دہشت گردی اور انتہا سندی کی طرف مائل ہونے ر مجبور کر رہے ہیں؟ پاکستان ، افغانستان، عراق ، شام ، تیونس، مراکش، مصر، لیبیا، سوڈان، مالی، صومالیہ، الجیریا اور فلسطین میں مسلمان عوام کا خوان اور عصمت ارزاں ترین ہے، ایسا کیوں ہے؟ کیا دنیا کی تمام اقوام میں مسلمان ہی جرائم پیشہ اور غلط کار لوگ ہیں جن کو اس عظیم اور وسیع پیمانے پر سزائیں دی جارہی ہیں یا کچھ دوسرے عوامل بھی ہیں جنہوں نے اس صورتحال کو جنم دیا ہے؟ ہم سمجھتے ہیں کہ مسلمان جرائم پسند نہیں بلکہ کچھ عوامل ایسے ہیں جو کہ ماضی اور حال کی مشکلات اور مخدوش مستقبل کے زمہ دار ہیں۔
ایک محترم نے مجھےبتایا کہ سر آپ کی تحاریر یکسانیت کا شکار ہورہی ہیں ۔ میرے پاس اُن کی بات سے اتفاق کرنے کے علاوہ دوسرا راستہ موجود نہ تھا اور وجہ یہ تھی کہ ہماری زیادہ سے زیادہ نصف درجن ایسی وجواہات ہیں جو ہماری اسی فیصد مشکلات کی ذمہ دار ہیں۔ مال و دولت اور جائیدادوں کو جمع کرنا اور اُن کو وراثت میں منتقل کرنا، سنت رسولؑ اور سنت خلفائے راشدین سے ثابت نہیں۔ ان عظیم ہستیوں نے ہمیشہ ایک اوسط شہری کی طرح زندگی بسر کی۔ اس طرح دین اسلام کے سیاسی شعبے میں نہ ذاتی بادشاہت کی گنجائش ہے اور نہ مغربی استحصالی جمہوریت کی بلکہ اسلام کا اپنا ایک جمہوری نظام ہے جس میں اُمرا (لیڈرز) کی اہلیت تقویٰ ، علم اور قوت حکمرانی ہوتی ہے۔ اسلامی حکومت میں اظہار خیال، تنقید، تجزیے اور محاسبے کی مکمل آزادی ہوتی ہے۔ اتنی آزادی کہ ایک عام شہری بھری مسجد میں خلیفہ وقت سے بغیر خوف کے پوچھ لیتا ہے اور خلیفہ بھی ایسا کہ نہایت سکون کے ساتھ وضاحت کردیتا ہے۔ وہ اعتراض کرنے والے کو کوڑے لگواتا ہے اور نہ اس کی زبان کاٹتا ہے۔
مسلمانوں کا شوریٰ جمہوریت اموی خاندان کے ہاتھوں بادشاہت میں تبدیل کیا گیا اور مسلمان میں بادشاہی نظام قائم ہوا جو تاحال (بعض مسلم ممالک میں ) گزشتہ چودہ صدیوں سے جاری وساری ہے۔ اُمویوں نے اور اُن کے بعد عباسیوں نے اُن علماءکو قتل یا گوشہ نشین کروایا جو قرآن وسنت کے مطابق معمولات زندگی اور معاملات دنیا کے قائل تھے اور اُن افراد کی حوصلہ افزائی کی جو قرآن وسنت کو رکوع و سجود اور ان سے متعلقہ اُمور تک محدود رکھنے پر یقین رکھتے تھے۔ گوشہ نشین عابد، زاہدمسلمانوں میں بادشاہوں اور بادشاہتوں کا فائدہ تھا اور آج بھی ہے۔ رہبانیت کو بنی کریم ﷺ نے رد فرمایا لیکن مسلمان بادشاہوں نے اس کو غیر محسوس ریاستی سرپرستی عطا کرکے اسلام اور مسلمانوں کو ایک محدود دائرے میں بند کردیا بلکہ اُن کے دل ودماغ سے حقوق العباد اور دنیاوی معاملات کا تقریباً خاتمہ کردیا۔ انیسویں اور بیسویں صدی میں جب مغربی استعماری قوتوں نے مشرق ومغرب میں مسلمان بادشاہوں کو مغلوب کیا۔ اس رہبانیت کی سوچ کو مزید استحکام ملا۔ سیاسی اور معاشی مشکلات کے لئے دعاؤں ، وظیفوں ، مراقبوں اور گوشہ نشینیوں کو زیادہ اہمیت دی گئی اور مسلمانوں کو یہ ذہن نشین کرایا گیا کہ مافوق الفطرت قوتیں اُن کی مدد کے لئے آئیں گی۔ ہندوستان میں سرسید کے اسکول نظام کو غیر مؤثر کرنے کی ضرورت محسوس کی گئ اور اس مقصد کے لئے صدیوں پرانی نصاب کی حوصلہ افزائی کی گئی۔ مشرقی اسلامی ممالک شیعہ سنی ٹھکراؤ کا زیادہ شکار رہے جس میں بڑی تیزی اُموی اور عباسی سیاسی کشمکش نے پیدا کی اور مشرق میں مسلمانوں کی تمام توانائیاں شیعہ سنی کے رداور قتل وغارت گری کی نظر ہوگئیں اور آج تک یہ ٹھکراؤ موجود ہے۔ اسلامی علوم کی ترقی زیادہ تر عباسی دور میں ہوئی۔ اس لئے ان علوم پر شیعہ سنی اختلاف ضرور پڑا جبکہ مسلم سپین ان نظریاتی اور سیاسی اختلاف سے بچا رہا۔ اس لیے یورپ نت مسلکی اور عقائد کے بغیر علوم سے مستفید ہو کر ترقی کا راستہ پایا۔ یہ زمانہ اس اختلاف کا گرم ترین زمانہ تھا ۔ وہی اختلافات اور گردن زنی کے خیالات ، کافر، مرتد ، واجب القتل وغیرہ کے الفاظ اور فقرے نصابِ مدارس میں جگہ پاگئے جو آج بھی پرھائے جاتے ہیں۔ قرآن وسنت کے سیدھے سادے نظریات جن میں گنجائش ، برداشت، قبولیت ، مکالمہ، صبروتحمل اور تعاون کی عظیم تعلیمات ہیں، نظروں سے اوجھل ہوگئے یا کروائے گئے۔ ان کی جگہ عدم برداشت او انتقام کے جذبوں نے لے لی۔ لیکن جدید تعلیم اور میڈیا نے مختلف عقائد کے عام مسلمانوں کو کئی حقائق سے روشناس کیا۔ پاکستان میں سنی اور شیعہ علماء اور عوام کو کوئی تیسری قوت مسلسل قتل کروا رہی ہے ۔ مقصد یہ ہے کہ ان دو فرقوں میں خانہ جنگی پیدا ہو لیکن شعور وآگہی کی وجہ سے یہ حربہ ناکام ہوگیا ہے ۔ اس شیطان کے ساتھی مسلمانوں کے اندر جدید تعلیم کو کمزور تر کرر ہے ہیں تاکہ سرسید کا نظریہ ناکام ہو جائے اور مخالف قوتیں ایک دفعہ پھر مسلمانوں کو مغلوب کرکے اُن پر سوار ہوجائیں۔
محتاط مطاعے اور غور سے یہ تنیجہ نکلتا ہے کہ مسلمان متوازن تعلیم سے محروم ہیں۔ جدید تعلیم یافتہ خواتین وحضرات قرآن وسنت کی بے شمار اُن تعلیمات سے بے خبر ہیں جو دور جدید مسلمانوں بلکہ انسانوں کی سیاسی ، معاشی اور معاشرتی مسائل کو بہت عمدہ اور سائنسی اندا ز کے ساتھ حل کرتے ہیں۔ دینی مدارس سے فارغ طلبہ دورجدید کے سیاسی ، معاشی اور معاشرتی علوم سے بے خبر و بے بہرہ ہیں۔ مشترکہ انسانی کمزوری یہ ہے کہ ہر شخص اپنے آپ کو برحق اور دوسرے کو غلط تصور کرتا ہے۔ پھر آج کل آپس میں بیٹھ کر برداشت اور احترام سے مکالمے کے مواقع فراہم کرنے سے ہم سب غافل ہیں۔ قرونِ وسطیٰ میں کون بر حق تھا اور کون ناحق ، اُس وقت کی حقیقتوں اور واقعات کو آج ہم اپنے آپس کے خون خرابے سے تبدیل نہیں کرسکتے ۔ ماضی میں یہود ونصاریٰ کا کرداکیا تھا؟ اُس کو ہم آج تبدیل نہیں کرسکتے۔ لیکن آج مسلمان اور غیر مسلم آپس میں ٹھکراؤ اور رد کی جگہ مکالمے، احترام ، برداشت اور تعاون کے ذریعے نہ صرف مسلمانوں کو بلکہ غیر مسلموں کو امن و سکون فراہم کرسکتے ہیں۔ امن وامان کا نقصان اسلحے کے سوداگروں اور دوسرے سرمایہ دار طبقوں کو مھسوس ہوگالیکن مکالمے اور برداشت اور تعاون کا مسلسل استعمال اُن کی بہتری کا بھی سبب ہوں گے۔
عالم اسلام کو عمومی اور پاکستان کو علما اور ماہرین فنون کو خصوصی چاہئے کہ دنیاوی اور دینی علوم کے لئے ایک بااختیار مجلس بنادیں جو مسلمان بچوں کے لئے ایک محتاط، یکساں اور بامقصد نصاب تعلیم اس اندازے سے وضع کریں جس میں ماضی کی تلخیوں ، مخالفتوں، نفرتوں اور عداوتوں کا ذکر نہ ہو بلکہ سائنسی انداز سے قرآن وسنت اور جدید نظریات سے اُس میں استفادہ ہو۔ مسلمان بچوں کو اسلامی تعلیمات کے دونوں پہلوؤں یعنی رکوع وسجود کے معاملات اور قرآن وسنت کے دیاوی اُصول اور معیار دونوں فراہم ہوں جن پر تاحال ہمارے محراب ومنبر ، مدارس ومساجد اور اسکول و کالجز خاموش ہیں۔ نتیجتاً مسلمان عصر حاضر کے تقاضوں کا مقابلہ کرنے سے قاصر ہیں۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔