Thursday, 17 January 2013

پولیس کی ذمہ داریوں میں کمی



محکمہ ٹرانسپورٹ خیبر پختون خواہ کے ایک اعلامیہ کے مطابق صوباءی حکومت نے موٹر وہیکلز آرڈی نینس ١۹٦۵ء کے تحت بنایے گیے قواعد کی دفعات پانچ، آٹھ اور دس میں ترامیم کرکے ڈرایونگ لاءسنس جاری کرنے کی ذمہ داری محکمہ پولیس سے واپس لے کر محکمہ ٹرانسپورٹ کے حوالے کی گءی ہے۔ اس سے پولیس پر کام کا دباءو کم ہوگیا ہے۔ ویسے بھی ٹریفک کی خلاف ورزیوں کے حوالے سے ڈراءیور طبقہ نہایت خود سر اور طاقت ور بن گیا ہے۔ اوورسپیڈنگ، اوور لوڈنگ، ناقص گاڑیاں، مسافروں کے ساتھ کیی ایک طریقوں سے ظلم پاکستانی معاشرے پر ایک بدنما داغ بن گیا ہے۔ مبینہ طور پر کیی سرکاری حکام خود ٹرانسپورٹرز بن بیٹھے ہیں جو اپنے آپ کو قانون سے بالا تر سمجھتے ہیں۔ ہر سال جتنے انسان پاکستان کے ڈراءیوروں کے ہاتھوں قتل اور معذور ہوتے ہیں شاید پوری دنیا کی مجموعی تعداد ان سے کم ہو۔ اس قتل عام میں محکمہ پولیس کے متعلقہ شعبے کی  بلواسطہ یا بلا واسطہ شرکت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ ایک ڈراءیور اگر بیس شہریوں کو قتل کرے تو اُس کو بیس گھنٹوں یا بیس روپوں کی سزا نہیں ہوتی اور نتاءج پاکستانی خود دیکھ رہے ہیں۔ اب صوباءی حکومت نے اس طرف توجہ دی جو کہ خوش آءند ہے لیکن یہ دیکھنا ہے کہ یہ عوام کے مفاد کے پیش نظر کیا گیا یا جی ٹی ایس کے خاتمے کے بعد گزشتہ بیس سال سے بےکار بیٹھے محکمہ ٹرانسپورٹ کو کام پر لگانے کے لیے کیا گیا۔ جہاں تک صوباءی محکمہ ٹرانسپورٹ کے کام کا تعلق ہے ، اُس کے بارے میں ہمارا علم نہ ہونے کے برابر ہے۔ سنا ہے کہ گاڑیوں کی نگرانی محکمہ ایکساءیز وٹیکسیشن کاکام ہے ۔ ڈراءیونگ لاءسنس کے اجراء کاکام تاحال محکمہ پولیس کے ذمہ تھا ۔ اب محکمہ ٹرانسپورٹ بھی اس میں آگیا۔ عین ممکن ہے کہ ًآمدنً کے نیے ذریعے کی تلاش میں یہ نیا طریقہ اختیار کیاگیا ہو۔ ورنہ بظاہر ایسے فواءید نظر نہیں آتےجو اس نیے طریقہ کار کے تحت حاصل ہوں گے۔ یہ ایک ایسا اہم اور نازک معاملہ ہے جس پر سیر حاصل بحث اور عمدہ فیصلوں کی ضرورت تھی۔ لاءسنس کے اجراء کے اختیارات کی منتقلی شاید معاملات کو بنانے کی جگہ بگاڑ دے گی۔
اگر چہ لاءسنس کے اجراء میں محکمہ پولیس اُس معیار کو برقرار نہیں رک سکا ہے جس کا تقاضا تھا۔ ڈراءیوروں کی ناقص ترین کارکردگی اور کھلم کھلا عوام کا قتل عام اس کے ناقابل تردید ثبوت ہیں کہ محکمہ غیر موزوں افراد کو گاڑیاں چلانے کا اجازت نامہ ﴿لاءسنس﴾ جاری کرتارہا ہے اور محکمہ پولیس تدارکی قوانین سازی کی سفارشات میں بھی ناکام نظر آتا ہے اور لکیر کا فقیر ہی رہا ہے لیکن ہمارے سرکاری اداروں میں موجود اہلیت اور دیانت کے معیار اور مقدار کے پیش نظر ہمیں خطرہ ہے کہ حالات خراب تر ہوجاءیں گےاور کل ایک دفعہ پھر طریقہ کار کو تبدیل کرنا پڑے گا۔
سرکاری اعلامیے میں تحریر ہے کہ یہ نیا طریقہ کار گزٹ میں شاءع ہونے پر قابل عمل ہوگا لیکن صوباءی حکومت کی طرف سے سرکاری گزٹ کی باقاعدہ اشاعت شاید ہی کسی نے دیکھی ہو بلکہ بے شمار لوگ تو گزٹ کو جانتے بھی نہ ہوں گے کہ یہ کس بلا کا نام ہے۔ اس طرح اعلامیے میں گزٹیڈ افسر کا ذکر ہے مجھے یاد نہیں پڑتا کہ کب کسی صوباءی گزٹ نے کسی اینکر کو گریڈ سولہ سترہ کی عطاءیگی اور اُس کے سروس کے دوسرے معاملات شاءع کیے ہیں جب گزٹ نہیں، گزٹیڈ افسر نہیں تو پھر کنفیوژنز پیدا ہوں گے۔ شک پڑتا ہے کہ محکمہ ٹرانسپورٹ کو تعداد کا مسءلہ درپیش ہوگا کیونکہ ٹرانسپورٹ کا شعبہ اب بہت بڑھ گیا ہے۔ بہتر ہوگا کہ شروع کے چند سال یہ کام ڈپیوٹیشن بینادوں پر چلایا جاءے۔ اگر سخت بات کی جاءے تو محکمہ پولیس بھی ٹریفک کے حوالے سے ایک ناکام ادارہ ثابت ہو چکا ہے۔ ٹریفک کے مساءیل کی زیادتی، ڈراءیوروں کی خود سری اور ننگا پن اس ناکامی کے واضح دلاءل ہیں۔ ڈراءیونگ لاءسنس کا موجودہ نمونہ نہایت ہی ناقص ہے۔ اس سے ایک ڈراءیور کی کارکردگی کی جانچ ممکن نہیں۔ بے شک ایک ڈراءیور سو افراد کا قاتل ہو، اسمگلر ہو، حادثات کا مترکب ہو، قوانین تورنے والا ہو، موجودہ لاءسنس اس قسم کی معلومات فراہم نہیں کرتا بلکہ بڑی گاڑیوں کے کنڈیکٹر جہاں خود ڈراءیونگ کرتے ہیں وہاں یہ ڈراءیوروں سے بھی زیادہ قانون شکن اور بداخلاق ہوتے ہیں۔ اسمگلنگ، اوور لوڈنگ یہی کرتےہیں۔ اس لیے ان کو ابھی لاءسنس یافتہ ہونا اور قابل مواخذہ ہونا چاہیے۔ تجویز ہے کہ اب جب حکومت نے ایک نیے طریقہ کار کا ارادہ کیا ہے تو اسے زیادہ عوام دوست اور بہتر انتظامی نتاءج کے مطابق بنایا جایے۔ مثلا ایک اقدام یہ لیا جانا چاہیے کہ ایک نیا لاءسنس ڈیزاءن کیا جاءے جس میں کافی ورق اور صفحات ہوں جن پر کم از کم ایک سال کے دوران کیے گیے جراءم کا اندراج ہو۔ یہ کتاب نما لاءسنس ہر درخواست گزار کو قیمتا فروخت کیا جاءے تاکہ سرکاری خزانے پر بوجھ نہ پڑے۔ ہر وار دات کا نام معہ تاریخ اس میں درج ہو تاکہ آءندہ اجراء کے وقت زیر غور لایا جاسکے۔ جس ڈراءیور کی کارکردگی اچھی ہو اُسے حسن کارکردگی کی سند عطاء ہو ۔ دوسرا یہ کہ اس نیے لاءسنس اور اس پر درج کرنے والی ہسٹری کی ایک کمپیوٹر ﴿سافٹ﴾ اور ایک کاغذی ﴿ہارڈ﴾ کاپی ہو تاکہ ڈراءیور حضرات گڑبڑ نہ کرسکیں۔ تیسرا یہ کہ محکمہ ٹرانسپورٹ کو بہترین اور مناسب تعداد میں افسران اور ملازمین مہیا کیے جاءیں اور دوسرے وساءل دیے جاءیں تاکہ وہ نیی ذمہ داریوں کو مناسب طریقے سے پورا کر سکے ۔ چوتھا یہ کہ نیے نظام میں ٹریفک اور ڈراءیوروں کی کارکردگی کی جانچ پڑتال ﴿مانیٹرینگ آف پرفارمنس﴾ کے ساتھ ساتھ محکمہ ہاءی ویز، میونسپل اداروں اور عوام سب کو قابل گرفت بناءے جاءے کیونکہ غلطیاں صرف ڈراءیور نہیں کرتے بلکہ دوسرے عوامل بھی ذمہ دار ہوتے ہیں۔ اس ایک گاڑی کی حالت، عمر وغیرہ اور مستری حضرات کا استعداد اور کام کو بھی باقاعدہ بنایا جاءے جس حادثے میں موت واقع ہو اُس میں ان سب عوامل ﴿فیکٹرز﴾ کو زیر غور لاکر عدل فراہم کیا جاءے۔ پانچواں اور آخری اقدام یہ کہ اس کام کے لیے قانون سازی کی ضرورت ہے لیکن موجود حکومتوں کے پاس اتنا وقت اب نہیں رہا ہے۔
پروفیسر سیف اللہ خان
مینگورہ ﴿سوات﴾۔
 

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔