ریاستوں کے درمیان دوستیاں اور دشمنیاں اُس وقت سے چلی آرہی ہیں جب ریاستیں اور حکومتیں اپنی اپنی شناخت کے ساتھ قائم ہوئیں۔ بیسویں صدی تک دوستانہ ماحول کم اور غیر دوستانہ بلکہ دشمنی کا ماحول زیادہ رہا۔ مہا بھارت اور کئی دوسری مذہبی کتب جنگ وجدل کے واقعات سے بھری پڑی ہیں۔ یورپ بیسویں صدی کی پہلی نصف تک اسی معاندانہ سوچ کے زیر اثر تھا۔ جب سائنس کی ترقی نے آلاتِ حرب کو خوفناک ترین حد تک ہلاکت خیز بنا دیا اور پہلی اور دوسری جنگ عظیم لڑی گئی تو یورپ کی جدید تعلیم یافتہ اشرافیہ اور عوام نے حسوس کیا کہ اُن کا فائدہ آپس میں امن سے رہنے میں ہے، جنگوں میں نہیں۔ اگر چہ کئی وجوہات یورپ میں محدود جنگوں کی اسباب بنیں لیکن یورپی ممالک کافی حد تک آپس میں دوست بن گئے جبکہ غیر یورپی عوام کی زیادہ تعداد جدید علوم سے تاحال محروم ہے۔ ان کی اشرافیہ میں بھی گہری قومی سوچ اور اپروچ کی کمی ہے۔ ان میں زیادہ تر مقتدر حضرات قومی اور بین الاقوامی مفادات کی جگہ اپنی ذاتی مفادات کو ترجیح دیتے ہیں یا اپنے اڑوس پڑوس کے ممالک کے بارے میں بہت تنگ نظری کا ثبوت دیتے ہیں۔
ممکن ہے کہ میری سوچ غلط ہو لیکن میرے خیال میں جدید جنگیں بھی قدیم جنگوں کی طرح مالی فوائد کے لئے لڑی جاتی ہیں۔ البتہ طور طریقے کچھ نہ کچھ بدلے گئے ہیں۔ آج اس میں طریقہ کار کی تبدیلی لائی گئی ہے۔ مثلاً کسی ملک میں ایسے حالات پیدا کئے جائیں کہ اُس کی صنعت یا زراعت یا دونوں کمزور ہوجائیں اور ایک غاصب ملک وہاں اپنی مصنوعات یا پیداوار کے لیے مارکیٹ بنائے۔
پاکستان اسلامی دنیا کا واحد جوہری ملک ہے۔ سیکرٹری محکمہ دفاع کے ایک حالیہ بیان کے مطابق پاکستان کی یہ حیثیت امریکہ اور برطانیہ دونوں کو پسند نہیں۔ اس طرح کچھ اور ممالک بھی اس حیثیت کو ناپسند کرتے ہوں گے بلکہ اس کے خلاف کام میں لگے ہوں گے۔ چوں کہ براہ راست حملے میں بہت ساری رکاوٹیں اور خطرات ہوتی ہیں۔ اس لیے مخالف قوتیں ایسے طور طریقے استعمال کرتے یا کرواتے ہیں کہ سانپ بھی مرجائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے ۔ ان غیر حربی طریقوں سے پاکستان کو اتنا کمزور کیا جائے کہ یہ اپنے ایٹمی اثاثوں کو فروخت کرنے پر مجبور ہوجائے اور خدانخواستہ دشمنوں کا ترنوالہ بنے۔ افغانستان، روس ، چین، بھارت ، پاکستان اور ایران جیسی قوتوں کے درمیان واقع ہے جس کے قریب ہی معدنی تیل اور معدنیات کے ذخائر اور روس و چین کے لیے پسندیدہ گرم پانیوں کی تجارتی بندرگاہیں ہیں۔ امریکہ افغانستان میں لمبے عرصے تک موجودگی کے ذریعے ان مواقع سے مفادات حاصل کرنے کا خواہاں ہے ۔ اس لیے اپنے ایک تابعدار غلام کو "سب سے پہلے پاکستان " کا نعرہ دے کر بغیر کسی جواز کے پاکستان کے اقتدار پر قابض کروایا جس کے ذریعے افغانستان میں اپنی مداخلت کو ممکن بنایا۔ اس غلام نے پاکستان میں دفاعی ، انتظامی، نظریاتی ، مالی اور مالیاتی تباہی کو ایک سوچے سمجھے اور منظم طریقے سے گیارہ سال تک جاری رکھا۔ پھر اپنی "بی" ٹیم کو اقتدار دلوا کر وطن عزیز میں تباہی و بربادی کی حد کروادی تاکہ روس، چین ، بھارت، پاکستان اور ایران کو امریکہ کے نشانے پر ڈالا جائے۔ اس لیے "سب سے پہلے پاکستان" کا ذومعنی فقرہ عام کیا گیا۔
دورِجدید کی سیاست میں جنگوں میں توپ وتفنگ ثانوی حیثیت رکھتے ہیں کیونکہ ان کے ذریعے جنگ میں جیت غیر یقینی ہوتی ہے۔ کئی ایک اور حربے گرم جنگ سے زیادہ کار آمد سمجھے جاتے ہیں جن میں کچھ یہ بھی ہیں۔ ایک یہ کہ مخالف قوم کے تعلیمی نظام کو ناکارہ بنایا جائے تاکہ وہ دانشمند اور حوصلہ مند افراد سے محروم رہے۔ تعلیم کاکام بے تعلیموں کے حوالے کرکے یہ مقصد آسانی سے برآور ہوسکتا ہے۔ دوسرا یہ کہ اس قوم کے خزانے کو مختلف طریقوں سے تباہ کیا جائے تاکہ وہ ترقی سے محروم ہو۔ تیسرا یہ کہ اس کے کارخانوں ، اداروں اور کھیت کھلیانوں کو تباہ کیا جائےتاکہ عوام روٹی کے ٹکڑے کے لیے ذلیل وخوار ہو کر افکار عالیہ سے محروم ہوں۔ پاکستان میں یہ کام واپڈا کے ایک سوئچ کے ذریعے کیا جارہا ہے۔ چوتھا یہ کہ سمگلنگ کے ذریعے اُس ملک کی پیداواری صلاحیت کو ختم کیا جائے تاکہ بیروزگاری اور بدامنی بڑھے۔ پانچواں یہ کہ عوام میں خوف وہراس، بے چینی و بے آرامی اور احساس عدم تحفظ کے لیے وسیع پیمانے کی دہشت گردی اور شدت پسندی شروع کی جائے (جو کہ ہمارے ہاں ہورہا ہے) تاکہ قوم میں اجتماعی سوچ کی جگہ ذاتی سوچ پیدا ہو اور اس کی قوتیں ضائع ہوں۔ چھٹا یہ کہ ایسے طور طریقے اختیار کئے جائیں کہ قوم اور قومی اداروں کے درمیان نفرت اور ٹکراو پیدا ہوجائے اور بھر پور حملے کی صورت میں مسلح افواج تنہا ہوں۔ ساتواں یہ کہ اُس قوم کے مختلف طبقوں میں خود غرضی اور خودسری کو بڑھایا جائے تاکہ اُن میں خانہ جنگی کا ماحول پروان چڑھے ۔ اپنے ایجنٹوں کے ذریعے حملے کروانے سے اس مقصد میں آسانی ہوتی ہے۔ آٹھواں یہ کہ اُس قوم میں اپنے وفاداروں کو اقتدار میں لایا جائے تاکہ وہ ان مقاصد میں رکاوٹ نہ بنیں بلکہ ان میں تعاون کریں۔ نواں یہ کہ جھوٹ کو اتنا عام کیا جائے کہ عوام ایمان کی دولت سے محروم ہوجائیں۔
آیئے ! سوچتے ہیں کہ ہم کہاں کھڑے ہیں۔
1 comments:
ہم وہاں کھڑے ہیں جہاں ہمارے مائی باپ بہادر نے حکم دیا ہے۔
ہم وہاں کھڑے ہیں جہاں کپڑے لتے اتار کر کھڑا ہوا جاتا ہے۔
ہم وہاں کھڑے ہیں جہاں مُنی کے ٹھمکے دیکھے جاتے ہیں اور تماشائی پیسہ پھینکتے ہیں
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔