چیئرمین نیب ایڈمرل(ر) فصیح بخاری سے منسوب خبروں کے مطابق وطن عزیز میں روزانہ سات ارب سے لے کر سولہ ارب روپیہ تک کی خورد برد کی جاتی ہے۔ اگر چہ جمعہ کے خطبوں اور تبلیغی حضرات کی وعظ ونصیحت میں ہم نہیں سنتے لیکن ہمارے نصاب کی کتابوں اور اساتذہ کرام کی گفتگو میں یہ بات سامنے آتی ہے کہ رشوت لینے والا اور دینے والا دونوں برابر کے گنہگار ہیں۔ اس طرح پاکیزہ معاملات صرف سرکاری ملازمین کے نہیں ہر مسلمان کے فرائض میں سے ہیں۔ کسی بھی مسلمان کو دوسرے کا حق مارنے کی اجازت نہیں۔ اللہ تعالیٰ بھی اپنا حق تو معاف کرتا ہے لیکن کسی دوسرے کا حق معاف نہیں فرماتا۔
عبد کا مطلب غلام ہے۔ پس عبادت کا مطلب ہوا کہ ایک مسلمان اللہ کے ہر حکم کو تسلیم کرکے اس کے مطابق عمل کرے۔ جس کام کے کرنے کا اُسے اللہ نے حکم دیا ہے ، وہ کرے اور جس کے کرنے سے منع کیا ہے، اس کو نہ کرے۔ نماز پڑھنے سے دن میں پانچ مرتبہ مسلمان اللہ کے سامنے سرجھکا کر اقرار کرتا ہے کہ "ایاک نعبدوایاک نستعین"۔ یعنی میں تیری عبادت کرتا ہوں یعنی تیرے امر و نہی کی پابندی کرتا ہوں۔اس لیے ان اعمال کے نتیجے میں جو مشکلات پیش آتی ہیں یا آئیں گی، اُن میں آپ کی مدد مانگتاہوں۔ اگر میں غلطی پر نہیں ہوں تو یہ اس آیت کریمہ کی سیدھی سادھی وضاحت ہے۔ امر کا سادہ مطلب ہے کسی کام کے کرنے کا حکم اور نہی کا سادہ مطلب ہے کسی کام سے منع کرنے کا حکم۔ امرونہی قرآن کے اولی ترین درجے کے احکامات میں سےہیں۔ علمائ ان الفاظ کے مزید معنی بھی جانتے ہوں گے۔
ہماری ایک بڑی کمزوری یہ ہے کہ ہم کسی جرم کےارتکاب میں صرف دوسرے کا جرم دیکھتے ہیں۔ ہم کہتے ہیں کہ فلاں سردار نے یا فلاں افسر نے یہ کیا، فلاں نے وہ کیا۔ فلاں ملازم نے یہ زیادتی کی، فلاں ممبر نے وہ زیادتی کی لیکن ہم اپنے برے اعمال کو نہیں دیکھتے کہ ہم خود کیا کرتے ہیں۔ چلو ایک سرکاری ملازم راشی ہے لیکن اُس میں رشوت کی عادت کس نے ڈالی ہے؟ جب ہم اپنی خود غرضی کے لیے ایک غیر قانونی حرکت کرتے ہیں تو سرکاری ملازم ہمیں منع کرتااور ہم اپنے ناجائز کام کو کرنے کے لئے اُس کو رشوت دیتے ہیں۔ کسی دفتر میں کئی درجن درخواست گزار ہم سے آگے ہوں گے لیکن ہماری کوشش ہوگی کہ اُن سب سے پہلے ہمارا کام ہوجائے اور اس زیادتی کے لیے ہم سرکاری ملازم کو رشوت دے کر اسے بے ایمان بناتے ہیں۔ یہ ہم ہی ہیں جو ٹھیکوں اور ٹینڈروں میں کمیشن دیتے ہیں اور اپنی بے ایمانیوں کو چھپاتے ہیں۔
ہماری ڈھیر ساری بدقسمتیوں میں سے ایک یہ ہے کہ ہم کرپشن صرف اس مالی بدعنوانی کو کہتے ہیں جس میں کوئی سرکاری ملازم یا سیاسی فرد ملوث ہو۔ ہمارے ارد گرد ہر گھنٹے میں بے شمار کرپشن ہوتی ہے لیکن ہم اس کو کرپشن نہیں سمجھتے بلکہ اُس جرم اور گناہ کو ، کاروبار، مزدوری اور منافع کے ناموں سے یاد کرتے ہیں۔تاجروں کے مسائل میں بڑا مسئلہ قدرِ زر میں کمی اور جدید اسالیبِ منڈی ہیں۔ یہ کام علمائے کرام کا ہے کہ وہ ان مسائل کا قابل عمل شرعی حل نکال لیں اور تاجروں کو بے ایمانیوں سے بچائیں۔ پنجگانہ عبادات میں عوام کی تربیت کے ساتھ معاملات دنیا میں اُن کی دینی حدود سے اُنھہیں روشناس کرنا بھی اہم ہے۔ چونکہ عوام اور خاص کر مارکیٹ سے وابستہ افراد پر بہت زیادہ اثر مذہبی حلقوں کا ہوتا ہے۔ اب یہ ذمہ داری محراب و منبر کی ہے کہ وہ عوام اور خصوصاً اہل مارکیٹ کو یہ یقین کرائے کہ "سراط مستقیم" کا مطلب بڑا وسیع ہے یہ گرام اور کلو گرام تک محدود نہیں بلکہ یہ عدل کرنے کا ایک اجتماعی حکم ہے کہ اگر آپ کسی گاہک سے رقم وصول کرتے ہیں تو بحیثیت تاجر کے یہ یقین کرلیں کہ آپ کا منافع جائز حد تک ہے۔ آپ اپنے گاہک کو نچوڑتے تو نہیں اور یہ کہ آپ جو چیز اُسے فروخت کرتے ہیں، اُس کا معیار اور مقداردونوں درست ہیں۔ بے شک سستی چیز کمزور ہوگی لیکن کیا اس قسم کے کام میں آپ خدا کے اُس حکم کو تو نہیں توڑتے جس میں فرمایا گیا ہے کہ "خود بھی نیکی کرو اور دوسروں کو بھی نیکی کرنے کی تلقین کرو۔، خود بھی برائی سے بچو اور دوسروں کو بھی برائی سے بچائو"۔ یہ بھی حکم ہے کہ "نیکی کے کاموں میں مدد کرو اور برائی کے کاموں میں مدد نہ کرو"۔ یہ آیاتِ قرآن کا سادہ ترجمہ ہے۔ کیا سستی کے نام پر ہم لوگ نمبر دو اور نمبر تین اوربعض اوقات مکمل جعلی بلکہ خطرناک اشیائ فروخت کرکے اس حکم خداوندی کی کھلی خلاف ورزی نہیں کرتے کہ برائی کے کاموں میں تعاون نہ کرو۔ ایک نیک دکاندار بھائی نے اسی نکتے پر بات کرتے ہوئے معذوری کا اظہار کیا کہ جناب پروفیسر صاحب اگر ہم "سستی" چیزیں فروخت نہ کریں تو چھوٹے دکاندار ہم سے صرف نمبر ایک مال نہیں اُٹھاتے ۔ وہ اُس دکاندار کے پاس چلے جاتے ہیں جہاں سے وہ کچھ مہنگی یعنی نمبرایک اور کچھ "سستی" یعنی نمبر دو چیزیں خرید سکتے ہوں۔ اس لیے ہمیں مجبوراً نمبر دو مال فروخت کرنا پڑتا ہے۔ اُس دکاندار بھائی کی بات میں بظاہر وزن معلوم ہوتا ہے لیکن یہی شیطانی جمالیات ہیں۔ یہ کام میری ہی برادری والوں کا اور ہم سے زیادہ محراب ومنبر اور تبلیغی حضرات کا ہے کہ وہ عوام کو امرونہی سمجھا دیں۔ ان کو بتادیں کہ کرپشن صرف سرکاری ملازمین سے وابستہ "رشوت ستانی" نہیں۔اگر آپ غلط اشیائ اور چوری شدہ مال کی خرید و فروخت کرتے ہیں، ملاوٹ کرتے ہیں، کم تولتے ہیں، چھوٹ بولتے ہیں، دوسروں کا حق مارتے ہیں، مفادات حاصل کرتے ہیں لیکن بل نہیں دیتے، تجاوزات کرکے قومی اخراجات اور عوامی مشکلات بڑھاتے ہیں، گناہوں کے کاموں کو فروغ دیتے ہیں، اس میں لوگوں کی مدد کرتے ہیں، کسٹم، ٹیکس، فیس وغیرہ ادا کرنے سے انکار یہ سب کرپش ہی ہے جو ہم لوگ کرتے ہیں اور سزا سے بچنے کے لیے مرتشی اور دوزخی بنتے ہیں۔ حق کے مطابق معاملات نہیں چلاتے اور اس کے وہی نتائج دنیا میں ہیں جو آج کل ہم دیکھ رہے ہیں بلکہ اللہ اس سے بھی بدترین عذاب لاسکتا ہے۔ وہ گستاخ اور سرکش قوم کو معاف نہیں کرتا۔ قرآن و احادیث اس بات کے گواہ ہیں۔ محراب ومنبر، مساجد ومراکز اور مدارس ، سکول اور کالج اور میڈیا سب پر فرض ہے کہ عوام کی صحیح خطوط پر تربیت کریں۔ ورنہ خدا کا وار بڑا سخت ہوتا ہے۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔