پریس کانفرنس سے خطاب کرے ہئوے ایک نوجوان ملک نورید اعوان(غالباپاکستان کے شہری) نے دوسری باتوں کے علاوہ یہ بھی انکشاف کیا کہ اُس نے اپنی محبوبہ عینی اور اُس کے والدین کو پوری دنیا کی سیر کروائی۔ اُسے 30لاکھ روپوں کا جوتا اور50لاکھ روپوں کا پرس خرید کردیا، پھر بھی وہ وفا نہ کرسکی۔ ممکن ہے قیمت کی مقدار میں مبالغہ ہو۔
یہ تو خیر ایک عاشق اور معشوق کی بات ہے ۔ آدم وحوا کی محبت ، وفااور بے وفائی کی کہانی بڑی پرانی ہے کہ کھبی آدم حوا سے شاکی اور کھبی حوا آدم سے ناراض لیکن اس خبر میں جس بات سے ہماری بھانچیں کھل گئیں اور رال ٹپکنے لگی وہ ایک 30لاکھ روپیہ کی جوتی والی بات تھی۔ ماشااللہ جس ملک میں 30لاکھ روپیہ کا ایک جوڑا جوتیوں کا پہنایا جاسکتا ہے وہاں کسی چیز کی کمی نہ ہوگی۔ جہاں 50لاکھ کا بٹوہ اور لاکھوں ڈالروں کا جیب خرچ غیر معروف شہری کرتے ہوں، وہاں کے معروف افراد کی طاقت اور عزت کی کیا حالت ہوگی۔ غالبا غنی خان کا پرانا پشتو شعر ہے جس کا ترجمہ کچھ یوں ہے کہ پختون کی شلوار پھٹی جارہی ہے اور گاندھی پاگل ہوگیا ہے کہ بھینس کے آگے بین بجا رہا ہے۔ پاکستان کے موجودہ حالات پر اس شعر کو منطبق کرنے کے لئے (غنی کی روح اور دوسرے حضرات سے معافی چاہتے ہوئے) اس میں ہم کچھ تبدیلی کرتے ہیں کہ پختون بہ معنی پاکستان ہو، باچا خان بہ معنی وہ سیاسی اور غیر سیاسی پاکستانی ہو جو اس ملک کی ترقی اور خوشحالی چاہتے ہیں۔ گاندھی کو ہم عدلیہ فرض کرتے ہیں جو اُمرائے مملکت وحکومت کو صراط مستقیم پر چلنے کی باربار ہدایت کررہی ہے لیکن عمل درآمد "صفر"۔ ایک ایسا معاشرہ جس میں محبوب کی ایک مسکراہت پر ایک کروڑ روپیہ خرچ کیا جاتا ہو وہاں اصلاح احوال کرنا آسان کام نہیں لیکن ساتھ ہی نااُمیدی کی جگہ اُمید کی گنجائش بھی ہوتی ہے۔ کوئی بھی معاشرہ امیروں اور غریبوں کے درمیان مخلصانہ تعاون کے بغیر زندہ اور پر امن نہیں رہ سکتا۔ اگر کسی معاشرے میں محنتی عوام کی موجودگی ضروری ہوتی ہے جس کے بغیر حرکت ونموناممکن ہوتی ہے تو وہاں اُمرا ، علما، قانون اور اشرافیہ کا وجود بھی ناگزیر ہوتا ہے۔ کسی بھی روبہ ترقی کے لئے امرا کا مثبت اور بڑی حد تک مخلصانہ سوچ اور سرمایہ کاری، علما کا عوام اور خواص کا قانون کے احترام کے لئے مسلسل تبلیغ اور اشرافیہ کا قومی معاملات میں مخلاصانہ کردار، عوام کی قوتوں کا مثبت کردار بہت ضروری ہوتا ہے، ورنہ صورتحال وہی ہوگی جو غنی خان نے تقسیم ہند سے قبل مذکورہ بالا بیت میں کی ہے کہ صرف چند افراد کی تگ ودو سے قومی مقاصد حاصل نہیں ہوسکتے۔ دور حاضر مغربی جمہوری نظام کا دور ہے۔ اس کے علاوہ یہ سائنسی دور ہے ۔مُلا کی جگہ اب میڈیا کے مختلف شعبے عوام کی ذہن سازی زیادہ تیزی اور زیادہ مئوثر انداز کے ساتھ کرسکتے ہیں۔ اس لئے اگر حکمران طبقہ فن حکمرانی کا ماہر اور ملک وقوم کی فلاح و ترقی میں مخلص ہو تو وہ میڈیا کا درست استعمال کرکے تھوڑے عرصے میں مطلوبہ اہداف حاصل کرسکتا ہے۔ ورنہ معاشرے کی وہ شکل بن جاتی ہے جو ہمارے یہاں بن گئی ہے۔ اگر محبوب کا جوتا تیس ہزار کا بھی ہو تب بھی اسراف کے دائے میں آتا ہے۔ ترقی یافہ اقوام پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ لوگ کھربوں ڈالروں کے ٹیکسوں کی ادائیگی کے بعد بھی بڑی بڑی رقوم سے فلاحی ادارے قائم کرکے پوری دنیا میں انسانوں کے علاوہ نباتات اور حیوانات کی فلاح کاکام کرتے ہیں۔ ان اداروں کو خطیر رقوم یہی طبقہ امرا فراہم کرتا ہے۔ خود اپنے یہاں ایدھی، شوکت خانم اور الخدمت فاونڈیشن اور بے شمار دوسرے فلاحی ادارے اسی طبقہ امرائ اور سوسائیٹی کی اشرافیہ کی مرہون منت ہیں لیکن ہمارے یہاں ان کا کردار بہت محدود ہے جبکہ ضرورت کافی زیادہ ہے۔ ملک نورید اعوان اور اُن جیسے با اثر اور مالدار لوگ اگر وسیع پیمانے اور سائینسی انداز سے اپنی ذکواۃ اور صدقات سے قوم کی مجموعی فلاحی کاموں کے لئے ادارے قائم کریں تو شاید عینی بھی اُس میں ایک رضاکار کی حیثیت سے کام کرنے اور وطن ہی میں رہنے میں فخر محسوس کرے گی۔ دین اسلام میں قانون کے اندر رہتے ہوئے مال و دولت کے کمانے پر، پھر ایک مخصوص حد سے اُوپر والے حصے کو ریاست کو منتقل کرنے، اُس پر ریاستی واجبات ادا کرنے اور کسی بھی سطح پر قانون شکنی نہ کرنے کی تاکید ہے۔ کیا ہی اچھا ہوگا کہ پاکستان کے اہل ثروت اس طرف توجہ دیں اور عوام کی ترقی وبہبود کے لئے سرمایہ کاری کریں۔ البتہ اس سلسلے میں حکمران طبقے (ایک جونئیر کلک سے لے کر سیکرٹری جنرل تک اور ایک بلدیاتی ممبر سے لے کر وزیر اعظم تک) کی بڑی ذمہ داری بنتی ہے۔ اگر ایک سرمایہ کار دس ارب روپیہ سے ایک کارخانہ بنانا چاہتا ہے لیکن سرکار اُسے بجلی فراہم نہیں کرتی یا اُسے پرامن ماحول اور مارکیٹ مہیا نہیں کرسکتی تو سرمایہ دار کی موجودگی اور اخلاص بے ثمر ، اگر سرکاری عملہ بددیانت اور نااہل ہو تو پھر بھی نتیجہ صفر۔ عوام، خواص اور وسائل سے مربوط استفادہ کے لئے جمہوری حکومتوں کے قیام کے لئے طلبگاروں کو احتیاط کے ساتھ کام کرنا چاہئے۔ ممبران اسمبلی گلکاری کے لئے نہیں ہوتے، عمدہ پالیسی سازی اور ملک وملت کی راہنمائی کے لئے ہوتے ہیں۔
جس اسکول میں میں پڑھاتا ہوں، اس نےدونوں ٹانگوں سے معذور نوجوان کو ہاسٹل اور کالج کی مفت سہولیات دے کر ایف ایس سی کروائی، بچے کا باپ ایک مزدور ہے۔ بچے نے اپنی قابلیت سے انجینئرنگ یونیورسٹی میں میرٹ پر داخلہ حاصل کیا۔ چند روز قبل میرے پاس آیا۔ داخلے کاکام تو ہوچکا ہے لیکن اب معذور اورغریب نوجوان ہاسٹل کے آٹھ دس ہزار روپیہ ماہورا کے خرچے کے لئے پریشان ہے۔ میں نے اپنی طرف دیکھا، پھر چاروں طرف نظریں دوڑائی لیکن
تاحال کوئی وسیلہ نظر نہ آسکا ہے۔
پروفیسر سیف اللہ خان، مینگورہ (سوات) ۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔