خبروں کے مطابق 19دسمبر 2012کو گورنمنٹ گرلزڈگری کالج سیدوشریف کی طالبات نے سخت احتجاج کے ذریعے حکومت سے مطالبہ کیا کہ اُن کے مذکورہ بالا کالج سے ملالہ یوسفزئی کا نام ہٹایا جائے اور کالج کا اپنا نام ہی بحال رکھا جائے۔ مبینہ طور پر ملالہ نے خود ڈی سی او سوات کو فون کرکے اُنہیں ایسا کرنے کی درخواست کی(روزنامہ آزادی سوات 21دسمبر2012)۔ ملالہ یوسفزئی معاملے کی حقیقت کیا تھی، یہ مخصوص مقاصد کے لئے ایک کامیاب ڈرامہ بازی تھا جس کے ذریعےچھوٹے بڑے سب کو بے وقوف بنایا گیا یا حقائق بھی اس معاملے میں موجود تھے؟ یہ اور اس قسم کی اور باتیں ہمارے کالم کا موضوع نہیں لیکن ہم یہ سمجھتے ہیں کہ خواہ یہ ڈرامہ تھا یا حقیقی کہانی، ایک عمدہ نتیجہ جو اس واقعہ سے سامنے آیا وہ یہ کہ بچیوں کی تعلیم کے لئے پیرس میں ملالہ کے نام سے ایک فنڈ قائم کیا گیا جس میں پاکستان نے بھی فوری طور پر دس لاکھ ڈالرز کاحصہ ڈالا۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ خبریں بھی آئیں کہ ملالہ کے والد صاحب کو شعبئہ تعلیم کا مشیر برائے اقوام متحدہ/یونیسیف مقرر کیا گیا۔
ملالہ ایجوکیشن فنڈ سے پاکستان کی بچیاں کتنی اور کس طرح مستفید ہوں گی؟ یہ ہمارا موضوع بحث ہے۔ کیونکہ پاکستان میں کثیر تعداد نوجوانوں اور بچوں کی ہے جس میں پچاس فیصد سے زیادہ بچیاں ہیں۔ مستقبل میں یہی بچے اس ملک کی باگ ڈور سنبھالیں گے اور اب تمام معاملات کو صرف مردوں کے حوالے کرنے کا زمانہ نہیں رہا۔ اسلامی اُصولوں اور مسلمانوں کی ثقافت کے اندر رہتے ہوئے دورِجدید میں خواتین کی خدمات سے مکمل استفادہ کیا جانا ضروری ہے، اب وہ طور طریقے بہت آسان اور محفوظ ہیں جن کے ذریعے خواتین ملک و ملت کی ترقی کے لئے اور اپنے خاندانوں کی کفالت کے لئے اپنا کردار ادا کرسکتی ہیں لیکن اس مقصد کے لئے عمدہ، سنجیدہ اور مخلصانہ پالیسی اور اُس پر عمل در آمد کی ضرورت ہوگی۔ سب سے پہلا اقدام یہ ہونا چاہئے کہ یہ منصوبہ سازی اور اس پر عمل درآمد کرسی نشین اساتذہ کرام کے ذمے نہ ہو۔ کیونکہ ان کی مخصوص نفسیاتی اور معاشرتی مجبوریوں نے تاحال تعلیم کے میدان میں ملک کو ترقی معکوس سے نوازا ہے۔ اس لئے خواتین میں تعلیم کے فروغ کے لئے محکمہ تعلیم کی جگہ ضلعی انتظامیہ ، پولیس اور سوسائٹی کی خدمات کو استعمال کرنا چاہئے۔ محکمہ تعلیم کی حالت تو یہ ہے کہ اس میں سینکڑوں کلرک حضرات ملازم ہیں جو عملا اس محکمے کو چلا رہے ہیں لیکن ان سینکڑوں حضرات میں خواتین کی تعداد شاید ہی چند درجن بھی نہ ہو۔ حالانکہ ان کلرک حضرات کی بیٹیوں اور بہنوں کو آسانی کے ساتھ کلرک بھرتی کیا جاسکتا ہے۔ کلرکوں کے بے شمار دفاتر خواتین آسانی کے ساتھ چلا سکتی ہیں۔
ملالہ فنڈ سے خواتین کی تعلیم کے لئے غیر روائیتی طریقے استعمال کئے جائیں تو یہ زیادہ سودمند نتائج دیں گے۔ فی الحال دوراُفتادہ اسکولوں میں خواتین/اُستانیوں کا پہنچنا اور وہاں پر ڈیوٹی سرانجام دینا ایک مشکل ترین مسئلہ ہے۔ محکمہ تعلیم کے افسران (مرد اور خواتین دونوں) مسائل کو حل کرنے کی جگہ جبر اور ظلم سے کام لیتے ہیں جس سے حالات اور بھی خراب ہوجاتے ہیں اور اُستانیوں کی اچھی خاصی تعداد ملازمت سے استعفٰی دینے پر مجبور ہوجاتی ہے۔ حضرت اکرم درانی اور شیخ القرآن وحدیث مولانا فضل علی حقانی وزیر تعلیم کے مبارک دور میں ملازمتوں کو معاہداتی بنایا گیا جس نے خواتین کے لئے ملازمت میں پیلی جیسی دلچسپی ختم کردی۔ اس ظالمانہ پالیسی نے خواتین کی تعلیمی ترقی کع کافی مثاثر کیا۔ اب سینکڑوں پڑھی لکھی لڑکیاں اُستانیاں بننے سے گھروں میں بیٹھنے کو ترجیح دیتی ہیں۔ حال ہی مٰں بے بس، غریب اور خدمت کرنے والی خواتین کارکنوں(انسداد پولیو کے قطرے پلانی والیاں) کو گلیوں میں ہلاک کیا گیا۔ اس نے استنایوں کے والدین کو بے شک فکر مند کیا کہ کل وطن دشمن اُن کو بھی نشانہ بنا سکتے ہیں(خدانہ کرے)۔ اس لئے ہمارے خیال میں مندرجہ ذیل اقدامات خواتین کی تعلیم کے فروغ میں ممدومعاون ہوں گی:۔
پہلا یہ کہ ملالہ فنڈ سے حاصل کردہ وسائل کو اس انداز سے استعمال کیا جائے کہ مقامی تعلیم یافتہ لڑکیوں کو جو پرائمری بچیوں/بچوں کو پڑھا سکتی ہوں کو مناسب مشاہیرہ پر ملازمتیں دی جائیں اور پی ٹی سی جیسی شرائط کو ختم کیا جائے۔ دوسرا یہ کہ پہلے مرحلے میں خواتین اُستانیوں سے ڈومیسائل اور عمر کی شرط ختم کی جائے۔ اگر دوسرے اضلاع یا صوبوں سے شادی شدہ خواتین معہ اپنے شوہروں کے دوراُفتادہ اسکولوں کے دیہاتوں میں رہائش اور کم از کم دس سال تک پڑھانے پر راضی ہوں تو اُن کو ملازمتیں دی جائیں۔ اُسکولوں کو اُستانیوں سے محروم رکھنا اور بچوں بچیوں کو تعلیم سے محروم رکھنے سے بہتر ہوگا کہ اسی ملک کے دوسرے علاقوں کی خواتین سے کام لیا جائے۔ تیسرا یہ کہ ضیاالدین یوسفزئی اس مسئلے کو ہم سے بہتر جانتے ہیں وہ خود ایک پسماندہ ضلع شانگلہ کے دیہاتی علاقے سے تعلق رکھتے ہیں، وہ اس سلسلے میں اپنا مثبت کردار ادا کریں۔ چوتھا یہ کہ ملالہ فنڈ سے ایسے اقدامات کرائیں جائیں کہ خواتین اساتذہ اور طالبات کو اسکول میں آنے جانے کی مشکلات حل ہوجائیں۔ اس سلسلے میں ٹرانسپورٹر حضرات ، مارکیٹ، محکمہ تعلیم اور پولیس کے ممبران پر مشتمل علاقائی کمیٹیاں متعلقہ ڈپٹی کمشنرز کی نگرانی میں مئوثر کردار ادا کرسکیں گی۔ اس طرح سکول والے گاوں اور دیہاتوں کی خواتیں اور بچیوں بچوں کے نگران مقرر ہوں۔پانچواں یہ کہ پرائمری سطح کی تعلیم میں 75فیصد اُستانیاں تعینات ہوں۔ اس تعداد کو بتدریج حسب ضرورت بڑھایا جائے اور ملالہ فنڈ سے اس میں مدد لی جائے۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔