Monday 18 February 2013

شمالی کوریا کا ایٹمی دھماکہ

 بین الاقوامی خبروں کے مطابق فروری 2013 ء کے پہلے عشرے کے آخری ایام میں شمالی کوریا نے ایک زیر زمین جوہری تجربہ (غالباًدوسرا)   کیا جس پر امریکہ لرزہ برا ندام اور اُس کا بغل بچہ اقوام متحدہ پریشان ہے۔ شمالی کوریا پہلے ہی سے ہزاروں میل تک مار کرنے والے بین البراعظمی میزائل کا کامیاب ترجبہ کرچکا ہے اور مغربی ممالک کے پراپیگنڈے اور میڈا بلیک آؤٹ کے باوجود اپنے آپ کو جاپان اور چین کے بعد مشرق بعید کا طاقت ور ملک ثابت کر رہا ہے۔ ایران جوہری طاقت بننے کے قریب ہے جبکہ اسرائیل پہلے ہی سے غیر اعلانیہ ایٹمی طاقت ہے۔ پاکستان مبینہ طور پر غیر تسلیم شدہ جبکہ بھارت تسلیم شدہ جوہری طاقتیں ہیں۔ یہ ممالک بلکہ چین اور روس بھی شدید عدم تحفظ کے احساس کی وجہ سے جوہری قوتیں بنی ہیں جبکہ امریکہ ، برطانیہ اور فرانس ایسے حالات کا شکار نہ تھے کہ ان کے لئے جوہری استعداد ضروری تھا بلکہ اُن کے ہاتھوں میں جوہری قوت آنے کے بعد دوسرے ممالک کو اپنی بقاکی فکر لاحق ہوئی۔ آج کل ہمارے اسکول کے بچے اس حقیقت کو جانتے ہیں کہ دوسری جنگ عظیم کے اختتام پر جاپان پر امریکہ کا جوہری بم استعمال کرنا غیر ضروری تھا۔ اپنے بے شمار گناہوں اور غلط پالیسیوں کی وجہ سے امریکہ خود کو مجرم سمجھ رہا ہے اور اس خوف میں مبتلاہے کہ دوسرے ممالک کے ایٹمی ہتھیار "شدت پسندوں" کے ہاتھ نہ لگ جائیں اور کہیں وہ اُن کو امریکہ پر استعمال نہ کریں۔ حال ہی میں امریکی صدر اوباما کا یہ بیان آیا کہ امریکہ ایران کو جوہری طاقت حاصل کرنے سے روکنے کے لئے ہر ضروری قدم اُٹھائے گا۔ دنیا بھر کے سنجیدہ افراد کے لئے یہ بیان تشویش کے باعث ہے۔ اسرائیل پہلے سے ایران پر حملے کی دھمکی دے چکا ہے۔ وہ کسی بھی وقت مسلمانوں کی فکری انجماد اور سیاسی انتشار سے فائدہ اٹھاکر کوئی شرارت کرسکتا ہے۔ حالانکہ امریکہ اور اسرائیل دونوں کے دانشور اس حقیقت کو جانتے ہیں کہ عراق کی طرح ایران (افغانستان اور پاکستان سمیت) اپنی پشت پر پانچ ہزار سالہ پرانی تاریخ رکھتا ہے۔ اس عظیم ورثے والی قوم پر حملہ کرکے اُسے نیست و نابود نہیں کیا جاسکتا بلکہ دنیا عظیم تباہی سے دوچار ہوسکتی ہے۔ جس میں اول ترین تباہی (معاشی اور سیاسی) امریکہ اور اُس کے حواری ممالک ہی ہونگے۔ خدانخواستہ اگر امریکہ یا اسرائیل ایران پر حملہ کرتا ہے تو ایران بھی ان کی کمر توڑنے کے لئے اُن اہداف پر ضرب لگائے گا جن میں امریکہ اور اُس کے دوست ممالک کے کھرب ہاکھرب ڈالروں کی سرمایہ کاری موجود ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان میں اپنی مرضی کے حکمرانوں کا لانا، یہاں کی سرکاری ملازمتوں پر غیر متعلقہ اور نا اہل افراد کا قابض کروانا، اس ملک میں ہر سطح پر کرپشن کو ترقی دلوانا اور اس ملک کی منصوبہ سازی کو کمزور اور ناقابل عمل بنانا اس کے خزانوں اور وسائل کو لوٹ مار اور خراب حکمرانی وبد انتظامی کے ذریعے برباد کروانے کا تجربہ کامیاب رہا ہے اور اس سے ایک جوہری ملک کو غیر جوہری بنانے کی اُمید ممکن ہو گئی ہے لیکن پاکستانکی سیاسی وسماجی حالات کچھ اور ہیں اور ایران اور کوریا کے کچھ اور ۔  پاکستان جیسے معاون حالات ایران اور کوریا میں نہیں ہیں۔ 
بدقسمتی سے مسلمانوں نے ذہنی اور فنی ترقی کرنے میں خود کو نااہل ثابت کیا جبکہ یورپ والوں نے اسی مٹی سے وہ جوہر حاصل کئے کہ وہ آسمانوں میں اڑنے لگے ۔ اپنی نا اہلیت کی وجہ سے مسلمان اقتصادی ترقی نہ کرسکے۔ معیار تعلیمکو ایک انچ آگے نہ بڑھایا۔ میرے علم میں مسلمانوں کی کوئی ایسی  حکومت ہندوستان میں نہیں گزری جس نے نظام ہائے تعلیم، صحت ، عدالت، مواصلات وغیرہ کو باضابطہ طریقے سے تمام سلطنت میں یکساں رائج کیا ہو۔ البتہ محصولات جن سے بادشاہ کے خزانے بھرا کرتے تھے کو وقتاً فوقتاً عوام کے مفاد کے خلاف ترقی دی ۔ بقول بھلے شاہ: "اے بھلیا! جو ٹکڑا تو نے کھایا اور جس ٹکڑے سے تونے اپنا ستر ڈھاپنا وہ تیرا باقی سب درانی کا"۔ ہندوستانی عوام کے ساتھ صدیوں کی بربریت نے اُن کے دلوں میں مسلمانوں کے ساتھ محبت کو ختم کیا۔ اس پر ہندوسماجکے عقائد اور اُصول نے جلتی پر تیل کا کردار ادا کیا اور جب 1803ء اور اُس کے بعد 1857ء میں مسلمان بے دست وپا ہوگئے تو ہندوؤں نے اُن سے صدیوں کا انتقام لینا شروع کیا۔ اُن کو ہر طرح سے دیوار کے ساتھ لگایا۔ اُن کو سیاسی ، معاشی اور معاشرتی طور پر تباہ کرنے کی کوشش کی حتیٰ کہ اُن کو واپس ہندو بنانے کے لئے مذہبی محاذ استعمال کیا گیا۔ ردعمل میں مسلمانوں نے پاکستان بنایا۔ ہندوؤں نے اپنی کوشش جاری رکھی اور اپنے ہم خیالوں سے ایسے حالات پیدا کروائے کہ ایک اسلامی ملک کی جگہ دو اسلامی ممالک بن گئے اور باقی ماندہ پاکستان کو بھی مزید تباہی کے منصوبے جاری کئے جن کا احساس اُس وقت کے سرداروں کو ہوا اور اُنہوں نے ایٹمی طاقت کے نیچے پناہ لینے میں اپنا فائدہ دیکھا ۔ ایران پر جب شاہ کا قبضہ تھا وہ امریکہ کی آنکھوں کا تارا تھا۔ اس کا ہر جرم قابل قبول تھا لیکن جب وہاں پر عوام کی حکومت آئی تو امریکہ اور اُس کے حواری اُسی دوست ملک کے مخالف بنے۔ کوریا کو دوحصوں میں تقسیم کیا گیا۔ ایک کو دوست اور دوسرے کو دشمن قرار دیا گیا۔ وہاں احساس عدم تحفظ پیدا کیا گیا جس نے شمالی کوریا کو جوہری طاقت بننے پر مجبور کیا۔ اسرائیل دوستی کی جگہ دشمنی کے ماحول میں موجود ہے جس نے اسے چوری چکاری کے جوہری بموں سے لیس کیا۔ ہمیں مغربی اور مشرقی دانشوروں سے بڑی اُمیدیں وابستہ ہیں ۔ مسائل کا حل عموماً دو طریقوں سے ہوتا ہے ۔ ایک آپس کے احترام کے ساتھ تعاون اور گفتگو کا رحمانی طریقہ ۔ کیا ہی اچھا ہوگا اگر دنیا کے طاقتور ممالک منفی طریقوں کے استعمال کی جگہ سچائی، تعاون اور مفاہمت کے طریقوں کو اختیار کریں۔ 
غالباً حضرت عیسیٰؑ کا قول ہے کہ اگر مخالف تیرے منہ پر تھپڑ مارے تو اُس کو تھپڑ نہ مار بلکہ منہ کا دوسرا رُخ اُس کے سامنے کر یعنی دوستی کا طریقہ اپناؤ دشمنی کا نہیں۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔