Thursday 17 January 2013

صواباءی ڈایریکٹیوریٹ کلاجز کی رسواءی


یہ نہایت افسوسناک خبر انیس دسمبر کے اخبارات نے شاءع کی کہ ایک پروفیسر صاحب جو ایڈیشنل ڈایریکٹر محکمہ اعلیٰ تعلیم تھے، کو عدالت کے حکم پر کرپشن کی وجہ سے گرفتار کیاگیاہے۔ ان کے ساتھ عملے کے افراد کو بھی گرفتاری کا سامنا کرنا پڑا۔ جرم خواہ کوءی بھی کرے، جرم ہی ہوتا ہے لیکن ایک ٹیچر جب مجرم بن جاتا ہے تو بہت دکھ کی بات ہوتی ہے۔ اقتدار کی کرسی خواہ بڑی ہو یا چھوٹی، مجھ جیسے معمولی لوگوں کے لیے بڑی کشش رکھتی ہے۔ ہم ٹیچروں کو جب گریڈ اٹھارہ اورانیس ہماری مدت ملازمت کی بنیاد پر ملتا ہے تو ہم اپنے آپ کو ڈپٹی کمشنر اورکمشنر سمجھنا شروع کردیتے ہیں اور یہ یقین کر لیتے ہیں کہ ہم اب ان گریڈوں کے ہر ذمہ داری کو نبھانے کے اہل ہیں۔ ایک تیسری قوت جو کہ خفیہ ہوتی ہے وہ اقتدار کا ہوس اور کچھ ًکمانے ً کی خواہش﴿بعض افراد میں﴾ ہوتی ہے۔ کمزور سیاسی سردار غیر موزوں بلکہ خطرناک افراد کو سرکاری کرسیوں پر بٹھا کر نہ صرف اپنی حکمرانی کو متاثر کردیتے ہیں بلکہ عوام کی مشکلات میں اضافہ کروا کر اپنی حکومت کو بدنام بھی کرواتے ہیں۔
صوباءی ڈایریکٹرصاحب﴿کالجز﴾ نے آتے ہی کافی پھرتیاں دکھانا شروع کیں تو ہمارے ایک ساتھی نے اُن سے متاثر ہوکر تعریف کی لیکن ہم چشم ِتصور میں دیکھ رہے تھے کہ یہ صرف اپنے وجود کے اظہار کے لیے ہورہا ہے۔ بنیادی نوعیت کی مثبت تبدیلیوں میں ڈایریکٹر صاحب اپنے پیش رووءں کی طرح ناکام ہوجاءیں گے اور وہی ہوا ہم سرکاری کالجز میں طلبہ، تعلیم اور والدین کے مفادات کے حوالے سے کوءی مثبت تبدیلی نہ دیکھ سکے۔ نہ ہم تعلیمی بورڈز کے حوالے سے کچھ مثبت تعلیمی تبدیلی محسوس کرسکے، نہ نصاب کے حوالے سے اور نہ یونیورسٹی کے معاملات کے حوالے سے۔
اے این پی کی حکومت نے آتے ہی محکمہ تعلیم کو اعلیٰ تعلیم اور اسکول تعلیم میں تقسیم کیااور ہر حصے کا الگ وزیر اور سیکرٹریٹ بنایے گیے۔ سیکرٹری اعلیٰ تعلیم کے ماتحت ڈگری کالج اور یونیورسٹیاں ہیں۔ ڈایریکٹرصاحبان نے ترنگ میں آکر اپنا عہدہ ڈایریکٹر ہایر ایجوکیشن قرار دیا اور عوام کو یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ گویا وہ بھی سیکرٹری اعلیٰ تعلیم کی طرح یونیورسٹیوں کا بھی ڈایریکٹر ہے۔ حالانکہ اُن کا کلرک لیول کا اختیار صرف سرکاری کالجوں تک محدود ہے۔ پرایویٹ کالج بھی اُن کو اپنا نگران اور راہنما نہں مانتے۔
دوسری سیاسی حکومتوں کی طرح اے این پی کی صوباءی حکومت نے آتے ہی اپنے لوگوں کو ڈایریکٹوریٹ بلکہ سیکرٹریٹ ، بورڈز اور یونیورسٹیوں میں کھپا یا لیکن اس میں قابلیت کا لحاظ کم رکھا۔ بس جو بھی پارٹی کا پیارا تھا اُسے لابٹھایا۔ اس سے قبل یہی عمل ایم ایم اے کا اور ان سے قبل دوسری پارٹیوں کا یہی وطیرہ رہا ہے۔ صرف اس دوران میں یہ عمل کم تر رہا جب ملک میں مارشل لاء ہوتا ہے۔ کمزور ﴿اُمور دفاتر کے حوالے سے﴾ اور ناسمجھ لیکچرار جب انتظامی معاملات کے کرسی نشین ﴿نگران﴾ ہوجاتے ہیں تو سب سے زیادہ بوجھ کلرک کے کاندھوں پر آپڑتا ہے۔ کیونکہ صاحب لوگ کچھ دفتری اُمور کے بارے میں جانتے نہیں۔ وہ افسری کو صرف دستخط کرنے تک محدود سمجھتے ہیں۔ پھر فیلڈ میں پروفیسر حضرات ، تعلیم اور تعلیمی اداروں کی جو مٹی پلید ہوتی ہے ، وہ ہم سب دیکھتے ہیں۔ کلرک بے چارہ کلرک ہوتا ہے ہر طرح سے پسماندہ۔ ایک دفعہ ایک پرنسپل صاحب کے خلاف ایک کلرک افسر﴿اسی ڈایریکٹوریٹ کا﴾ ڈٹ گیا اور کہا کہ دیکھیے حضور اس پرنسپل صاحب نے ہمیں بہت تنگ کیا اور ہم نے ان کے کالج کو کیمسٹری کا لیکچرار دے دیا۔ اب ان کی اس مزید زیادتی کو دیکھیں کہ اب یہ آرگینک اور ان آرگینک کا قصہ لے آیے، ہم نے لیکچرار دے دیا تو دے دیا۔
صوباءی ڈایریکٹوریٹ آف کالجز مدہوش ترین محکموں میں سے ایک ہے۔ یہ صرف اور صرف کلرکوں کے سہارے چل رہا ہے۔محکمہ خزانہ اور محکمہ اعلیٰ تعلیم ﴿یعنی صوباءی حکومت﴾ کے اس کو واضح ترین ہدایات ہیں کہ جوں ہی کسی بڑے گریڈ میں پانچ آسامیاں خالی ہوجاءیں تو ڈایریکٹر صاحب دس موزوں افراد کی لسٹ /کواءف سرکار کو پیش کریں تاکہ اُن میں سے پانچ کی ترقی کراءی جایے۔ لیکن ہوتا یہ کہ سینکڑوں آسامیاں خالی ہونے کے بعد ڈایریکٹوریٹ لیکچرار یونین کے مسلسل دباءو اور تعاون کے بعد ہزاروں ناموں کو صوباءی حکومت کو پیش کرتا ہے جن میں سینکڑوں غلطیوں کی نشاندہی کرکے حکومت ان کو واپس کرتی ہے۔ ایک لیکچرار کو پانچ سال مدت ملازمت پر ﴿بشرط یہ کہ گریڈ اٹھارہ میں جگہ خالی ہو﴾ گریڈ اٹھارہ میں ترقی مل سکتی ہے لیکن ڈایریکٹر صاحب دس تاپندرہ سال گریڈ سترہ میں انتظار کرواتے ہیں۔ واعلیٰ ہٰذا القیاس۔
مالی معاملات میں ڈایریکٹوریٹ خوفناک حد تک ناکام ادارہ ہے۔ تقریبا ہر سرکاری کالج میں کوءی نہ کوءی فراڈ، غبن ، بد معاملگی موجود ہے لیکن ڈایریکٹر صاحب اپنے عملے کی رپورٹ پر انحصار کرتے ہوءے چھپ سادھ لیتے ہیں۔ ایک کالج میں ایک کلرک فراڈ کرلیتا ہے۔ ڈایریکٹوریٹ ہی کی نا اہلیت اور بالواسطہ یا بلاواسطہ اشتراک سے ملزم گھر بیٹھے تنخواہ لیتا رہتا ہے لیکن پرنسپل صاحب مہینوں بلکہ سالوں بغیر تنخواہ اور پنشن کے سسک سسک کے مرجاتا ہے نہ صرف خود مرجاتا ہے بلکہ اُس کے بال بچے بھی ناکردہ جرم کا شکار ہوجاتے ہیں۔ اگر ڈایریکٹر اچھا اور قابل ہو تو قانون یہ ہے کہ جب تک مجاز اتھارٹی یا عدالت تنخواہ یا پنشن نہیں روکتی کوءی کسی ملازم کی تنخواہ نہیں روک سکتا۔ معطل ہونے کے دوران پوری تنخواہ گزارہ الاءونس کی شکل میں حتمی فیصلے تک ادا ہوتی رہتی ہے۔
حکومت کی سخت ہدایت ہے کہ گریڈ ١۹میں ترقی کے لیے ہرگریڈ اٹھارہ کے ملازم کا این آءی پی اے کورس کرنا ضروری ہے لیکن ڈایریکٹوریٹ اس سے پہلو تہی کرتا ہے اور نتیجتا فراڈ اور غبن میں اضافے ہوتے ہیں۔
معیارتعلیم، مقدار تعلیم، نصاب اور کالجوں میں غیر قانونی زیادہ کام ﴿لوڈ آف ورک﴾  کی جانچ پڑتال کے معاملے میں ڈایریکٹر صاحب اور اُن کا عملہ غافل ترین ہے۔ حالانکہ اس سلسلے میں باقاعدہ طریقہ کار صوباءی حکومت نے وضع کیا ہوا ہے۔
ہم اپنے لمبے تجربے کی بنیاد پر وثوق کے ساتھ کہتے ہیں کہ جب تک محکمہ تعلیم کے مالی، مالیاتی، منصوبہ سازی اور  انتظامی اُمور کی ذمہ داری کلاس ٹیچر کے ذمے ہوگی تب تک تعلیم کا بیڑہ غرق ہوگا۔ اس لیے حکومت کوایک دلیراقدام کرکے کرکے ان کرسیوں سے ٹیچر حضرات کو ہٹا کر باقاعدہ افسران ﴿سی ایس ایس/ پی ایم ایس﴾وغیرہ تعینات کرنا چاہیے۔ سیکرٹریٹ میں بھی قابل اور اہل افسران کی شدید ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ سیکرٹری تعلیم اپنی مانیٹرنگ کے معیار کو بہتر کرے۔
پروفیسر سیف اللہ خان
مینگورہ ﴿سوات﴾۔
 

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔