Thursday, 31 January 2013

دور جدید میں دشمن کے دائو


ریاستوں کے درمیان دوستیاں اور دشمنیاں اُس وقت سے چلی آرہی ہیں جب ریاستیں اور حکومتیں اپنی اپنی شناخت کے ساتھ قائم ہوئیں۔ بیسویں صدی تک دوستانہ ماحول کم اور غیر دوستانہ بلکہ دشمنی کا ماحول زیادہ رہا۔ مہا بھارت اور کئی دوسری مذہبی کتب جنگ وجدل کے واقعات سے بھری پڑی ہیں۔ یورپ بیسویں صدی کی پہلی نصف تک اسی معاندانہ سوچ کے زیر اثر تھا۔ جب سائنس کی ترقی نے آلاتِ حرب کو خوفناک ترین حد تک ہلاکت خیز بنا دیا اور پہلی اور دوسری جنگ عظیم لڑی گئی تو یورپ کی جدید تعلیم یافتہ اشرافیہ اور عوام نے حسوس کیا کہ اُن کا فائدہ آپس میں امن سے رہنے میں ہے، جنگوں میں نہیں۔ اگر چہ کئی وجوہات یورپ میں محدود جنگوں کی اسباب بنیں لیکن یورپی ممالک کافی حد تک آپس میں دوست بن گئے جبکہ غیر یورپی عوام کی زیادہ تعداد جدید علوم سے تاحال محروم ہے۔ ان کی اشرافیہ میں بھی گہری قومی سوچ اور اپروچ کی کمی ہے۔ ان میں زیادہ تر مقتدر حضرات قومی اور بین الاقوامی مفادات کی جگہ اپنی ذاتی مفادات کو ترجیح دیتے ہیں یا اپنے اڑوس پڑوس کے ممالک کے بارے میں بہت تنگ نظری کا ثبوت دیتے ہیں۔


ممکن ہے کہ میری سوچ غلط ہو لیکن میرے خیال میں جدید جنگیں بھی قدیم جنگوں کی طرح مالی فوائد کے لئے لڑی جاتی ہیں۔ البتہ طور طریقے کچھ نہ کچھ بدلے گئے ہیں۔ آج اس میں طریقہ کار کی تبدیلی لائی گئی ہے۔ مثلاً کسی ملک میں ایسے حالات پیدا کئے جائیں کہ اُس کی صنعت یا زراعت یا دونوں کمزور ہوجائیں اور ایک غاصب ملک وہاں اپنی مصنوعات یا پیداوار کے لیے مارکیٹ بنائے۔
پاکستان اسلامی دنیا کا واحد جوہری ملک ہے۔ سیکرٹری محکمہ دفاع کے ایک حالیہ بیان کے مطابق پاکستان کی یہ حیثیت امریکہ اور برطانیہ دونوں کو پسند نہیں۔ اس طرح کچھ اور ممالک بھی اس حیثیت کو ناپسند کرتے ہوں گے بلکہ اس کے خلاف کام میں لگے ہوں گے۔ چوں کہ براہ راست حملے میں بہت ساری رکاوٹیں اور خطرات ہوتی ہیں۔ اس لیے مخالف قوتیں ایسے طور طریقے استعمال کرتے یا کرواتے ہیں کہ سانپ بھی مرجائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے ۔ ان غیر حربی طریقوں سے پاکستان کو اتنا کمزور کیا جائے کہ یہ اپنے ایٹمی اثاثوں کو فروخت کرنے پر مجبور ہوجائے اور خدانخواستہ دشمنوں کا ترنوالہ بنے۔ افغانستان، روس ، چین،  بھارت ،  پاکستان اور ایران جیسی قوتوں کے درمیان واقع ہے جس کے قریب ہی معدنی تیل اور معدنیات کے ذخائر اور روس و چین کے لیے پسندیدہ گرم پانیوں کی تجارتی بندرگاہیں ہیں۔ امریکہ افغانستان میں لمبے عرصے تک موجودگی کے ذریعے ان مواقع سے مفادات حاصل کرنے کا خواہاں ہے ۔ اس لیے اپنے ایک تابعدار غلام کو "سب سے پہلے پاکستان " کا نعرہ دے کر بغیر کسی جواز کے پاکستان کے اقتدار پر قابض کروایا جس کے ذریعے افغانستان میں اپنی مداخلت کو ممکن بنایا۔ اس غلام نے پاکستان میں دفاعی ، انتظامی، نظریاتی ، مالی اور مالیاتی تباہی کو ایک سوچے سمجھے اور منظم طریقے سے گیارہ سال تک جاری رکھا۔ پھر اپنی "بی" ٹیم کو اقتدار دلوا کر وطن عزیز میں تباہی و بربادی کی حد کروادی تاکہ روس، چین ، بھارت،  پاکستان اور ایران کو امریکہ کے نشانے پر ڈالا جائے۔ اس لیے "سب سے پہلے پاکستان" کا ذومعنی فقرہ عام کیا گیا۔
دورِجدید کی سیاست میں جنگوں میں توپ وتفنگ ثانوی حیثیت رکھتے ہیں کیونکہ ان کے ذریعے جنگ میں جیت غیر یقینی ہوتی ہے۔ کئی ایک اور حربے گرم جنگ سے زیادہ کار آمد سمجھے جاتے ہیں جن میں کچھ یہ بھی ہیں۔ ایک یہ کہ مخالف قوم کے تعلیمی نظام کو ناکارہ بنایا جائے تاکہ وہ دانشمند اور حوصلہ مند افراد سے محروم رہے۔ تعلیم کاکام بے تعلیموں کے حوالے کرکے یہ مقصد آسانی سے برآور ہوسکتا ہے۔ دوسرا یہ کہ اس قوم کے خزانے کو مختلف طریقوں سے تباہ کیا جائے تاکہ وہ ترقی سے محروم ہو۔ تیسرا یہ کہ اس کے کارخانوں ، اداروں اور کھیت کھلیانوں کو تباہ کیا جائےتاکہ عوام روٹی کے ٹکڑے کے لیے ذلیل وخوار ہو کر افکار عالیہ سے محروم ہوں۔ پاکستان میں یہ کام واپڈا کے ایک سوئچ کے ذریعے کیا جارہا ہے۔ چوتھا یہ کہ سمگلنگ کے ذریعے اُس ملک کی پیداواری صلاحیت کو ختم کیا جائے تاکہ بیروزگاری اور بدامنی بڑھے۔ پانچواں یہ کہ عوام میں خوف وہراس، بے چینی و بے آرامی اور احساس عدم تحفظ کے لیے وسیع پیمانے کی دہشت گردی اور شدت پسندی شروع کی جائے (جو کہ ہمارے ہاں ہورہا ہے) تاکہ قوم میں اجتماعی سوچ کی جگہ ذاتی سوچ پیدا ہو اور اس کی قوتیں ضائع ہوں۔ چھٹا یہ کہ ایسے طور طریقے اختیار کئے جائیں کہ قوم اور قومی اداروں کے درمیان نفرت اور ٹکراو پیدا ہوجائے اور بھر پور حملے کی صورت میں مسلح افواج تنہا ہوں۔ ساتواں یہ کہ اُس قوم کے مختلف طبقوں میں خود غرضی اور خودسری کو بڑھایا جائے تاکہ اُن میں خانہ جنگی کا ماحول پروان چڑھے ۔ اپنے ایجنٹوں کے ذریعے حملے کروانے سے اس مقصد میں آسانی ہوتی ہے۔ آٹھواں یہ کہ اُس قوم میں اپنے وفاداروں کو اقتدار میں لایا جائے تاکہ وہ ان مقاصد میں رکاوٹ نہ بنیں بلکہ ان میں تعاون کریں۔ نواں یہ کہ جھوٹ کو اتنا عام کیا جائے کہ عوام ایمان کی دولت سے محروم ہوجائیں۔
آیئے ! سوچتے ہیں کہ ہم کہاں کھڑے ہیں۔
مکمل تحریر >>

Wednesday, 30 January 2013

ملاکنڈ ڈویژن میں ٹیکسوں کا نفاذ

  روزنامہ آزادی سوات 15جنوری 2013کی اشاعت میں ایک خبر کے مطابق مرکزی حکومت نے ایک دفعہ پھر صوبائی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ملاکنڈ ڈویژن کے سات اضلاع کو ٹیکس کے دائرےمیں شامل کردے۔ ساتھ ہی تاجروں کے انکار کی خبر 19جنوری کے روزنامہ آزادی سوات نے شائع کی اور ایک صوبائی وزیر اور ایک بڑی سیاسی جماعت کے ایک معزز کی طرف سے بھی ٹیکسیشنز کے خلاف بیانات اخبارات نے چھاپے ہیں ۔ تاجروں کے انکار کی خبر تو خیر سمجھ میں آسکتی ہے کیونکہ اس طبقے کے زیادہ تر افراد اپنے منافع پر کوئی حد یا کسی قسم کی وصولی زمانہ قدیم سے نہیں مانتے۔ یہ ہر صورت میں اپنا فائدہ چاہتے ہیں، خواہ عوام تباہ اور ملک کمزور ہی کیوں نہ ہو۔ زمانہ قدیم سے یہی طبقہ چوروں ، ڈاکووں، لٹیروں اور آج کل اغوا کاروں اور بھتہ خوروں کے نشانے پر ہے لیکن سیاست کاروں کی طرف سے انکار صرف انتخابات میں حمایت حاصل کرنے کے لیے ہوسکتا ہے ورنہ اچھی حکمرانی کے لئے وسائل کی فراہمی سے انکار ممکن نہیں۔ بادشاہوں کے زمانے میں اس طبقے سے سخت سزاوں کے ذریعے ٹیکس وصول کیا جاتا تھا اور اب پھر وہ دور آرہا ہے کہ ان سے سختی ہی کی جائے گی۔ البتہ اس ذہین طبقے نے اپنی من مانیاں کرنے کے لئے جمہوری دور سے فائدہ اُٹھایا اور خود اقتدار کی کرسیوں پر قابض ہوگئے اور ملک کی وہ حالت بنادی جس کی مثال اس ملک کی تاریخ میں نہیں ملتی۔ تعجب اس بات پر ہے کہ یہ ذہین اور ہوشیار طبقہ ہم لوگوں سے بہتر جانتا ہے کہ کوئی بھی حکومت مالی وسائل کے بغیر کام نہیں کرسکتی۔ ایک معمولی کچی سڑک سے لے کر بڑے بڑے ریاستی اداروں کے چلانے کے لئے پیسے درکار ہوتے ہیں اور انسانی تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ حکومت کے لئے وسائل صاحبان ثروت کے ٹیکسوں ہی سے جمع کروائے جاتے رہے ہیں۔ دین اسلام میں حکومت کو مالی وسائل فراہم کرنے کے لئے زکوٰۃ وعشر کی ادائیگی کو ارکانِ دین میں قرار دیا گیا یعنی اس سے انکار کو دین سے خروج ٹھہرایا گیا لیکن ہماری مشکل یہ ہے کہ ہم لوگ درست انداز سے زکوٰۃ کی ادائیگی نہیں کرتے اور عشر کا تو نام ہی لوگ بھول گئے ہیں۔
پہلے خلیفہ راشد حضرت ابوبکرؓ کی حکوت کو پہلا مسئلہ  مفکریں زکوٰۃ کا پیش آیا۔ سمجھا نے کے باوجود جب اُن لوگوں کا انکار برقرار رہا تو آپ نے اُن پر فوج کشی کرتے ہوئے فرمایا: "خدا کی قسم!اگر کسی نے بکری کے گلے کی رسی جو زکوٰۃ میں دینے والی تھی، کے دینے سے انکار کیا تو میں اُس کے خلاف لڑوں گا"۔ یہ ہے ریاست کی خاطر مالی وسائل کی فراہمی کے لئے مسلمان حکمران کا کردار۔ اس اہمیت سے عوام عموماً غافل رکھے گئے ہیں۔ لہو ولعب میں عوام کی مسلسل تربیت تو ہوتی ہے لیکن شہریوں کے فرائض اُن کو بتانے کی سعی ہم کسی طرف سے نہیں دیکھتے۔
ذاتی طور پر ہم ادائیگی زکوٰۃ ، عشر اور صدقات و خیرات (ٹیکسز، صدقات و خیرات کی تعریف میں آسکتے ہیں)کے قائل ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ ہمارے یہاں دولت مندوں کی تعداد اُن کی دولت کی مقدار کافی سے زیادہ ہوچکی ہے۔ یہ اُن کا دینی اور اخلاقی فرض ہے کہ وہ مقررہ مقدار کی ادائیگی کریں۔ اس سے معاشرے میں عدل قائم ہوتا ہے اور عدل سے امن و امان، جو ہم سب کی ضرورت ہے۔ جہاں تک متعلقہ عمال میں خیانت گری کی بات ہے تو وہ ایک قدیم انسانی کمزوری ہے لیکن چند افراد کی خیانت کا یہ مطلب نہیں کہ سب لوگ خیانت گر بن جائیں۔ اس وقت کمزور حکمرانی کی وجہ سے وطن عزیز اٹھارہ ہزار ارب روپیہ کا مقروض ہو چکا ہے، قانون کی سختی سے پابندی کے بغیر یہ بوجھ کم نہیں ہوسکتا۔
اگرچہ ہمیں ایسی کوئی مستند دستاویز نظر نہیں آئی جس میں حکومت پاکستان نے سابقہ والئی سوات سے اس علاقے کو تاقیامت قومی واجبات سے مستثنیٰ قراردیا ہو لیکن اس غلط بیانی کو ہمارے علاقے کا "بورژوا طبقہ" ہوا دے رہا ہے تاکہ ان کی تجوریاں عوام کا خون نچوڑ نچوڑ کر بھرتی رہیں۔ ایسا کوئی معاہدہ کسی بھی وقت نہیں ہوا  ہے ۔ کوئی خفیہ کاغذ ایسے بڑے معاملے میں تحریر ہو ہی نہیں سکتا۔ یہ تو خوشخبری ہوتی جس کا اشتہار ہوتا۔ ریاست کا ادغام ہمیں اچھی طرح یاد ہے، اُس وقت پورے سوات میں ایک درجن سے بھی کم پختہ مکانات تھے ۔ اگر آج کے ساتھ موازنہ کیا جائے تو اب سوات کے چند خواص ہزار ہا گنا سے زیادہ مالدار ہوگئے ہیں بلکہ جو کنٹرول اور اعلیٰ حکمرانی والئی سوات  کے دور میں تھی، اُس کا عشر عشیر بھی آج نہیں۔ سن پینسٹھ کی جنگ کے بعد مینگورہ کے ایک تاجر نے گندم کی بوری ایک روپیہ مہنگی کی اور اُسے ریاست کی طرف سے جرمانہ کیا گیا کہ جب تم نے مہنگا نہیں خریدا تو تم نے کیسے اس کی قیمت بڑھائی؟ آج ہمارے تاجر حضرات اپنے اپنے گریبانوں میں جھانک کر دیکھ لیں ۔ معیار اور مقدار میں جو ظلم ہماری مارکیٹ کرتی ہے ، دنیا بھر میں اُس کی نظیر نہیں ملتی۔ پھر پاکستانی تاجر منافع کی کتنی مقدار رکھتے ہیں، اس کی کوئی حد یا اُصول نہیں۔ اگر والئی سوات والا مفروضہ درست تسلیم کیا جائے تو ملاکنڈ کے باقی ماندہ اضلاع جو ریاست سے الگ تھے، میں ٹیکس نافذ کیا جائے گا اور بے پناہ دولتمند سواتی اس سے بچ جائیں گے اگر ملاکنڈ ڈویژن ٹیکس دینے سے مزید انکار کرے گا تو کل اس کا ترقیاتی فنڈ محصولات سے منسلک کیا جائے گا کیونکہ عوام کی حکومت اور اے این پی نے مل کر اٹھارویں ترمیم آئین میں کی ہے جس کے تحت محصولات اور مالی وسائل کی تلاش اب صوبوں کا کام ہے۔ پی پی پی اور اے این پی کو اس ڈویژن کے عوام نے اقتدار دیا ، اب اُن کی بات ماننی ہوگی۔ مردان، پشاور، کوہاٹ وغیرہ یہ کبھی برداشت نہیں کریں گے کہ ملاکنڈ ڈویژن جس میں موٹر گاڑیوں ، پلازوں ، مارکیٹوں اور عمدہ پکی عمارات کی تعداد تو پورے صوبے کی مجموعی مقدار سے زیادہ ہے، خود تو کچھ نہ دیں اور اُن کے جمع کردہ ٹیکس پر مزے اُڑائیں۔ ٹیکس سے انکار، کسٹم سے انکار، لائسنس سے انکار، رجسٹریشن سے انکار، قبضہ ، تجاوزات اور"سب کچھ میرا" والا خیال درست نہیں۔ اسی "سب کچھ میرا" کے دعوے نے اس ڈویژن کے عوام میں مایوسی اور نااُمیدی پیدا کرکے اُن کو منفی کردار پر آمادہ کیا اور برے نتائج اسی علاقے کو بھگتنا پڑے۔ اس موضوع پر حکومت کے عمال اور حکمرانوں کو کافی سے زیادہ احتیاط، تدبر اور عدل کے ساتھ سوچ سمجھ کر حکمت سے کام کرنا چاہئے ورنہ صاحبان ثروت عوام کو بھڑکا بھی سکتے ہیں۔


مکمل تحریر >>

Thursday, 24 January 2013

کرپشن


چیئرمین نیب ایڈمرل(ر) فصیح بخاری سے منسوب خبروں کے مطابق وطن عزیز میں روزانہ سات ارب سے لے کر سولہ ارب روپیہ تک کی خورد برد کی جاتی ہے۔ اگر چہ جمعہ کے خطبوں اور تبلیغی حضرات کی وعظ ونصیحت میں ہم نہیں سنتے لیکن ہمارے نصاب کی کتابوں اور اساتذہ کرام کی گفتگو میں یہ بات سامنے آتی ہے کہ رشوت لینے والا اور دینے والا دونوں برابر کے گنہگار ہیں۔ اس طرح پاکیزہ معاملات صرف سرکاری ملازمین کے نہیں ہر مسلمان کے فرائض میں سے ہیں۔ کسی بھی مسلمان کو دوسرے کا حق مارنے کی اجازت نہیں۔ اللہ تعالیٰ بھی اپنا حق تو معاف کرتا ہے لیکن کسی دوسرے کا حق معاف نہیں فرماتا۔

عبد کا مطلب غلام ہے۔ پس عبادت کا مطلب ہوا کہ ایک مسلمان اللہ کے ہر حکم کو تسلیم کرکے اس کے مطابق عمل کرے۔ جس کام کے کرنے کا اُسے اللہ نے حکم دیا ہے ، وہ کرے اور جس کے کرنے سے منع کیا ہے، اس کو نہ کرے۔ نماز پڑھنے سے دن میں پانچ مرتبہ مسلمان اللہ کے سامنے سرجھکا کر اقرار کرتا ہے کہ "ایاک نعبدوایاک نستعین"۔ یعنی میں تیری عبادت کرتا ہوں یعنی تیرے امر و نہی کی پابندی کرتا ہوں۔اس لیے ان اعمال کے نتیجے میں جو مشکلات پیش آتی ہیں  یا آئیں گی، اُن میں آپ کی مدد مانگتاہوں۔ اگر میں غلطی پر نہیں ہوں تو یہ اس آیت کریمہ کی سیدھی سادھی وضاحت ہے۔ امر کا سادہ مطلب ہے کسی کام کے کرنے کا حکم اور نہی کا سادہ مطلب ہے کسی کام سے منع کرنے کا حکم۔ امرونہی قرآن کے اولی ترین درجے کے احکامات میں سےہیں۔ علمائ ان الفاظ کے مزید معنی بھی جانتے ہوں گے۔

ہماری ایک بڑی کمزوری یہ ہے کہ ہم کسی جرم کےارتکاب میں صرف دوسرے کا جرم دیکھتے ہیں۔ ہم کہتے ہیں کہ فلاں سردار نے یا فلاں افسر نے یہ کیا، فلاں نے وہ کیا۔ فلاں ملازم نے یہ زیادتی کی، فلاں ممبر نے وہ زیادتی کی لیکن ہم اپنے برے اعمال کو نہیں دیکھتے کہ ہم خود کیا کرتے ہیں۔ چلو ایک سرکاری ملازم راشی ہے لیکن اُس میں رشوت کی عادت کس نے ڈالی ہے؟ جب ہم اپنی خود غرضی کے لیے ایک غیر قانونی حرکت کرتے ہیں تو سرکاری ملازم ہمیں منع کرتااور ہم اپنے ناجائز کام کو کرنے کے لئے اُس کو رشوت دیتے ہیں۔ کسی دفتر میں کئی درجن درخواست گزار ہم سے آگے ہوں گے لیکن ہماری کوشش ہوگی کہ اُن سب سے پہلے ہمارا کام ہوجائے اور اس زیادتی کے لیے ہم سرکاری ملازم کو رشوت دے کر اسے بے ایمان بناتے ہیں۔ یہ ہم ہی ہیں جو ٹھیکوں اور ٹینڈروں میں کمیشن دیتے ہیں اور اپنی  بے ایمانیوں کو چھپاتے ہیں۔

ہماری ڈھیر ساری بدقسمتیوں میں سے ایک یہ ہے کہ ہم کرپشن صرف اس مالی بدعنوانی کو کہتے ہیں جس میں کوئی سرکاری ملازم یا سیاسی فرد ملوث ہو۔ ہمارے ارد گرد ہر گھنٹے میں بے شمار کرپشن ہوتی ہے لیکن ہم اس کو کرپشن نہیں سمجھتے بلکہ اُس جرم اور گناہ کو ، کاروبار، مزدوری اور منافع کے ناموں سے یاد کرتے ہیں۔تاجروں کے مسائل میں بڑا مسئلہ قدرِ زر میں کمی    اور جدید اسالیبِ منڈی ہیں۔ یہ کام علمائے کرام کا ہے کہ وہ ان مسائل کا قابل عمل شرعی حل نکال لیں اور تاجروں کو بے ایمانیوں سے بچائیں۔ پنجگانہ عبادات میں عوام کی تربیت کے ساتھ معاملات دنیا میں اُن کی دینی حدود سے اُنھہیں روشناس کرنا بھی اہم ہے۔ چونکہ عوام اور خاص کر مارکیٹ سے وابستہ افراد پر بہت زیادہ اثر مذہبی حلقوں کا ہوتا ہے۔ اب یہ ذمہ داری محراب و منبر کی ہے کہ وہ عوام اور خصوصاً اہل مارکیٹ کو یہ یقین کرائے کہ "سراط مستقیم" کا مطلب بڑا وسیع ہے یہ گرام اور کلو گرام تک محدود نہیں بلکہ یہ عدل کرنے کا ایک اجتماعی حکم ہے کہ اگر آپ کسی گاہک سے رقم وصول کرتے ہیں تو بحیثیت تاجر کے یہ یقین کرلیں کہ آپ کا منافع جائز حد تک ہے۔ آپ اپنے گاہک کو نچوڑتے تو نہیں اور یہ کہ آپ جو چیز اُسے فروخت کرتے ہیں، اُس کا معیار اور مقداردونوں درست ہیں۔ بے شک سستی چیز کمزور ہوگی لیکن کیا اس قسم کے کام میں آپ خدا کے اُس حکم کو تو نہیں توڑتے جس میں فرمایا گیا ہے کہ "خود بھی نیکی کرو اور دوسروں کو بھی نیکی کرنے کی تلقین کرو۔، خود بھی برائی سے بچو اور دوسروں کو بھی برائی سے بچائو"۔ یہ بھی حکم ہے کہ "نیکی کے کاموں میں مدد کرو اور برائی کے کاموں میں مدد نہ کرو"۔ یہ آیاتِ قرآن کا سادہ ترجمہ ہے۔ کیا سستی کے نام پر ہم لوگ نمبر دو اور نمبر تین اوربعض اوقات مکمل جعلی بلکہ خطرناک اشیائ فروخت کرکے اس حکم خداوندی کی کھلی خلاف ورزی نہیں کرتے کہ برائی کے کاموں میں تعاون نہ کرو۔ ایک نیک دکاندار بھائی نے اسی نکتے پر بات کرتے  ہوئے معذوری کا اظہار کیا کہ جناب پروفیسر صاحب اگر ہم "سستی" چیزیں فروخت نہ کریں تو چھوٹے دکاندار ہم سے صرف نمبر ایک مال نہیں اُٹھاتے ۔ وہ اُس دکاندار کے پاس چلے جاتے ہیں جہاں سے وہ کچھ مہنگی یعنی نمبرایک اور کچھ "سستی" یعنی نمبر دو چیزیں خرید سکتے ہوں۔ اس لیے ہمیں مجبوراً نمبر دو مال فروخت کرنا پڑتا ہے۔ اُس دکاندار بھائی کی بات میں بظاہر وزن معلوم ہوتا ہے لیکن یہی شیطانی جمالیات ہیں۔ یہ کام میری ہی برادری والوں کا اور ہم سے زیادہ محراب ومنبر اور تبلیغی حضرات کا ہے کہ وہ عوام کو امرونہی سمجھا دیں۔ ان کو بتادیں کہ کرپشن صرف سرکاری ملازمین سے وابستہ "رشوت ستانی" نہیں۔اگر آپ غلط اشیائ اور چوری شدہ مال کی خرید و فروخت کرتے ہیں، ملاوٹ کرتے ہیں، کم تولتے ہیں، چھوٹ بولتے ہیں، دوسروں کا حق مارتے ہیں، مفادات حاصل کرتے ہیں لیکن بل نہیں دیتے، تجاوزات کرکے قومی اخراجات اور عوامی مشکلات بڑھاتے ہیں، گناہوں کے کاموں کو فروغ دیتے ہیں، اس میں لوگوں کی مدد کرتے ہیں، کسٹم، ٹیکس، فیس وغیرہ ادا کرنے سے انکار یہ سب کرپش ہی ہے جو ہم لوگ کرتے ہیں اور سزا سے بچنے کے لیے مرتشی اور دوزخی بنتے ہیں۔ حق کے مطابق معاملات نہیں چلاتے اور اس کے وہی نتائج دنیا میں ہیں جو آج کل ہم دیکھ رہے ہیں بلکہ اللہ اس سے بھی بدترین عذاب لاسکتا ہے۔ وہ گستاخ اور سرکش قوم کو معاف نہیں کرتا۔ قرآن و احادیث اس بات کے گواہ ہیں۔ محراب ومنبر، مساجد ومراکز اور مدارس ، سکول  اور کالج اور میڈیا سب پر فرض ہے کہ عوام کی صحیح خطوط پر تربیت کریں۔ ورنہ خدا کا وار بڑا سخت ہوتا ہے۔
مکمل تحریر >>

Tuesday, 22 January 2013

پاک اُردو انسٹالر اپنے کمپیوٹر کے لیے اُردو ڈاون لوڈ کریں





مکمل تحریر >>

پہلی اُردو بلاگرز کانفرنس لاہور


اہم اعلان



    اردو بلاگرز کانفرنس 26-27 جنوری 2013ء کو ایوانِ صنعت و تجارت لاہور پاکستان کے کانفرنس ہال میں منعقد ہو رہی ہے۔مزید تفصیل

مکمل تحریر >>

منتخب کالمز ۷

پروفیسر سیف اللہ خان کے کچھ منتخب کالمز جو روزنامہ آزادی سوات  میں وقتاً فوقتاً شاءع ہوتے رہے ہیں۔


















مکمل تحریر >>

Monday, 21 January 2013

منتخب کالمز ٦

پروفیسر سیف اللہ خان کے کچھ منتخب کالمز جو روزنامہ آزادی سوات  میں وقتاً فوقتاً شاءع ہوتے رہے ہیں۔
















مکمل تحریر >>

منتخب کالمز ۵

پروفیسر سیف اللہ خان کے کچھ منتخب کالمز جو روزنامہ آزادی سوات  میں وقتاً فوقتاً شاءع ہوتے رہے ہیں۔
















مکمل تحریر >>